فورسز کے زیر حراست لاپتہ افراد کو قتل کیا جارہا ہے۔ ماما قدیر بلوچ

580

جبری گمشدگیوں اور لاپتہ افراد کی عدم بازیابی کے خلاف وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز کا احتجاجی کیمپ کوئٹہ پریس کلب کے سامنے 4720 ویں دن جاری رہا ۔

اس موقع پر بھاگ ناڑی سے سیاسی و سماجی کارکنان آفتاب بلوچ ،اویس مستوئی ،ارسلان بلوچ اور دیگر نے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ریاستی خفیہ ادارے، فورسز اور سی ٹی ڈی بلوچوں کی جبری گمشدگیوں اور نسل کشی میں براہ راست ملوث ہیں اور اسکے ٹھوس شواہد ہمارے پاس موجود ہیں،
جبری گمشدگی ایک سنگین جرم ہے، یہ اقوام متحدہ چارٹر کے منافی اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے، دوسری جانب پاکستان دنیا کو بلیک میل کر کے سفاکیت سے بلوچ نسل کشی میں مصروف عمل ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں پاکستانی خفیہ ادارے آئے روز بلوچ فرزندوں کی جبری گمشدگی اور دوران حراست انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد شہید کر کے لاشیں ویرانوں میں پھینکنے میں مصروف ہیں۔ 2001 سے لیکر اب تک ہزاروں بلوچ فرزندوں کو خفیہ ادارے سی ٹی ڈی، ایف سی بھرے بازار گھروں مسافر گاڑیوں اور تعلیمی اداروں سے اٹھا کر جبری لاپتہ کے چکے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر اٹھائے جارہے ہیں۔ جن میں ایک بڑی تعداد خواتین اور پیران سال بزرگوں کی بھی ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ پاکستان کے حکمران خفیہ اداروں کے جرائم پر پردہ ڈال کر عالمی اداروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کر رہی ہے، ان حالات میں اقوام متحدہ کا کمیشن برائے انسانی حقوق ادار بھی پاکستان کے خلاف کوئی عملی قدم اٹھانے سے قاصر ہوکر صرف تشویش اور افسوس کے تک محدود ہے۔