غلامی اور کینیا کا دیدن کماتی ۔ دوستین کھوسہ

532

غلامی اور کینیا کا دیدن کماتی

تحریر : دوستین کھوسہ

دی بلوچستان پوسٹ

آزاد افریقہ کی تاریخ لاکھوں افریقیوں کی قربانیوں اور جدوجہد سے لکھی گئی ہے، جنہوں نے قبضہ گیریت کے خلاف اور اپنی قومی شناخت ، زبان ، وطن کے تحفظ کے لیے اپنا سب کچھ قربان کیا اور تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔ واجہ دیدن کماتی کینیا کے ضلع نیاری (Niyari) میں 1920 ء میں پیدا ہوئے۔ واجہ دیدن کماتی نے بچپن سے ہی غلامی، تباہی، غربت ، بزگی اور مظالم کو قریب سے دیکھا۔ کماتی کا باپ اسکی پیدائش سے ایک مہینے پہلے فوت ہوا۔ کماتی کی پرورش اس کی ماں نے کی۔ کماتی کے باپ کی تین بیویاں تھیں۔ اس کے دو بھائی اور دو بہنیں تھیں ۔ کماتی جب پیدا ہوئے تب برطانیہ نے 1920 ء میں کینیا کو باقاعدہ قانونی طور پر اپنی کالونی ڈکلیئر کیا مگر وہ تجارتی کمپنی کی صورت میں پہلے سے ہی کینیا میں موجود تھے۔

کینیا میں برطانوی قبضہ گیریت نے مقامی لوگوں کی مذہب ، تعلیم ، شناخت، ثقافت ، زبان ، رہن سہن اور معیشت کو تباہ و برباد کردیا۔ کینیا کو برطانیہ نے 1901 سے 1963 ء کے درمیان تک اپنی کالونی بنائے رکھا۔ برطانوی فوج کینیا کے وسائل ، آرام دہ اور پرسکون آب و ہوا ، ذرخیز زمینوں ، باغات کو دیکھ کر کینیا پر قابض ہوئے اور انہوں نے وہاں کے لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کرکے ان کو ملازم بنایا۔ برطانوی قبضہ کے بعد سیاہ فام افراد اپنی زمینوں پر گورے کے کام کرنے والے ملازم بنائے گئے۔ برطانوی فوج نے مقامی شہریوں کا قتل عام کیا، لاکھوں افریقیوں کو ٹارچر سیلز میں ڈالا ، شہریوں کی آزادی اور بنیادی حقوق ہذف کیے۔

حالات زمین زادوں کی تربیت خود کرتے ہیں جیسے کماتی کی تربیت غلامی سے پیدہ شدہ حالات نے کی۔ کماتی ایک اعلی مصنف ، شاعر اور مفکر تھے۔ انہوں نے ماؤ ماؤ جنگ سے پہلے اور جنگ کے دوران بہت سی تحریریں لکھیں۔ وہ کچھ عرصہ استاد کے پیشے سے وابستہ رہے جہاں برطانوی قبضہ گیریت کے خلاف تعلیم دینے پر انہیں سکول انتظامیہ نے فارغ کر دیا گیا۔

1947 میں واجہ کماتی کینیا افریقی یونین (Kenya African Union) میں شامل ہوئے جو کہ ایک آزادی پسند سیاسی تنظیم تھی جس کا مقصد کینیا کی آزادی تھا ۔ 1950ء میں انہیں کینیا افریقن یونین کے اول کالو (Ol kalou) زون کا جنرل سیکرٹری بنایا گیا ، جو ماؤ ماؤ گوریلا جنگجوؤں کے زیر کنٹرول تھا۔

ماؤ ماؤ کا آغاز کینیا لینڈ اینڈ فریڈم آرمی ( Kenyan Land and Freedom Army) کے طور پر ہوا اور اسکے جنگجو تین افریقی قبیلوں کے لوگوں پر مشتمل تھے۔ انکا مقصد افریقی زمینوں کی ملکیت دوبارہ حاصل کرنا تھا جس پر برطانوی نوآبادکاروں نے قبضہ کر رکھا تھا . ماؤ ماؤ بنیادی طور پر افریقیوں کی پرتشدد قوم پرست تحریک تھی، انہوں نے نوآبادیاتی حکام اور سفید فام آباد کاروں کے خلاف پرتشدد مہم شروع کی۔اور انہوں نے افریقی غداروں کو بھی نشانہ بنایا جو کہ برطانوی حکومت کے سہولت کار کے طور پر کام کر رہے تھے۔

جوں جوں تنظیم نے اپنے آپ کو مضبوط اور وسیع کیا برطانوی نوآبادکار اسے اپنے لیے خطرہ سمجھنے لگے۔ کینیا کی تحریک آزادی اور جدوجہد پر ماؤ ماؤ بغاوت کا سب سے بڑا اثر یہ ہوا کہ کسانوں ، مزدوروں ، بزگر ، بد حال عوام کو سیاسی اور متحرک بنانے اور ان کی سیاسی تربیت اور معاشی سوچ کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ ماؤ ماؤ کا حلف اٹھانے کے بعد واجہ کماتی نے 1951 ء میں ( Forty group) میں شمولیت اختیار کر لی، جو کینیا افریقی یونین ( KAU) کے ممبران پر مشتمل ایک مسلح تنظیم تھی وہ آزادی اور جدوجہد کے لیے تشدد کی سیاست پر یقین رکھتے تھے۔ زونل جنرل سکریٹری کی حیثیت سے کماتی نے حلف برداری کی صدارت کی۔ جہد اور آزادی کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اس نے تشدد کا راستہ چنا۔ پر تشدد تنظیمی سرگرمیوں کی وجہ سے کماتی اور اسکی تنظیم کو برطانوی حکومت نے کریک داؤن کا نشانہ بنایا، اور اسی سال گرفتار کر لیا گیا لیکن مقامی پولیس کی کمک سے کماتی کو باہر نکالا گیا۔ پھر کماتی نے کینیا میں منظم بغاوت کا آغاز کیا اور اس نے 1953ء میں تمام جنگجوؤں کی آپس میں کوارڈینیشن اور رابطہ کے لیے کینیا ڈیفنس کونسل تشکیل دی جس کا مقصد جنگلوں میں جنگ کو شدت دینا اور اسے شہری علاقوں تک پھیلانا تھا۔

جنگ کے دوران کماتی نے ایک نظم لکھی جو کہ افریقی زبان میں تھی۔
‏In the forest, I was sometimes plagued
‏by doubts.
‏If I died today
‏Would our people continue
‏the struggle?
‏I would look at the braves
‏killed
‏I would say:
‏If I died to-day
‏Will this blood ever be
‏betrayed?
‏That was my Trial.
‏But now I know that
‏for every traitor
‏there are a thousand patriots…

‏Our people will never surrender
‏Internal and external foes
‏will be demolished
‏And Kenya/Africa shall be free!

‏~ Field Marshal Dedan Kimathi

بغاوت اور جنگ میں شدت پر برطانوی حکومت نے ماؤ ماؤ جنگجوؤں اور انکے حامیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاون کیا اور پکڑ دھکڑ شروع کی، بڑی تعداد میں لوگوں کو پھانسیاں دی گئی اور 150,000 افریقیوں کو ٹارچر سیلز اور کیمپوں میں ڈالا گیا۔ ایک آزاد کینیا کے لیے کیماتی کی لڑائی 1956 میں اختتام پذیر ہوئی۔ 21 اکتوبر 1956 ء کو برطانوی آرمی آفیسر ہینڈرسن نے انہیں مزاحمت کے بعد زخمی حالت میں گرفتار کیا انکو ٹانگ میں گولی لگی تھی جو کہ افریقی قبائلی پولیس اہلکار نے ماری۔ کماتی کی گرفتاری نے جنگلوں میں جاری گوریلا جنگ میں تیزی لائ ۔ ماؤ ماؤ اور ان کے حامیوں کے حوصلے پست کرنے کے لیے کماتی کی تصویر انگریزوں نے کتابچوں میں چھاپی اور 120,000 سے زیادہ پمفلٹ تقسیم کیے۔ کماتی پر برطانوی حکومت نے اسلحہ رکھنے اور دہشتگردی کا مقدمہ بنایا۔ اور برطانوی جج نے کماتی کو سزائے موت سنائی۔ جیل اور مقدمے کے دوران برطانوی حکومت کماتی کو خریدنے کے لیے پادری، کاروباری شخصیت ، سیاست دان اور بینکر کو بیجھتی ہے جو کہ کماتی کو اس کے مقصد سے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اسے رشوت دینے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ جدوجہد ترک کر دے اور سرنڈر کر دے جس پر واجہ کماتی بولتے ہیں۔
‏”It’s Better To Die On Our Feet Than To Live On Our Knees”

اپنی پھانسی سے ایک دن پہلے اس نے اپنی بیوی سے ملنے کو کہا، اور پھانسی کی صبح بیوی کو دیدن کماتی سے ملنے کی اجازت دی گئی۔ دونوں نے دو گھنٹے تک بات کی ۔ کماتی نے بیوی کو بتایا “میرے ذہن میں کوئی شک نہیں ہے کہ انگریز مجھے پھانسی دیں گے۔ میں نے کوئی جرم نہیں کیا، میرا جرم صرف یہ ہے کہ میں کینیا کا ایک انقلابی ہوں جس نے ایک لبریشن آرمی کی قیادت کی ہے ، آپ میرا افسوس کی بجائے مجھ پر فخر کرنا، میرا خون آزادی کے جدوجہد کو مزید تقویت دے گا۔”

18 فروری 1957 کی صبح کماتی کو جیل میں پھانسی دے دی گئی۔ اسے ایک گمنام ، بے نشان قبر میں دفن کر دیا گیا۔ 12 دسمبر، 1963 ء کو ماؤ ماؤ بغاوت میں اضافے کے بعد کینیا نے اپنی آزادی حاصل کی اور برطانوی قبضہ گیریت کا سورج غروب ہوگیا۔
دیدن کماتی اور ماؤ ماؤ بغاوت تمام مظلوم قوموں کے لیے ایک مشعل راہ ہے جو کہ آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔

‏’As long as Kimathi lies in Kamiti prison, a colonial prison, we cannot be free!’


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں