شہید ثاقب کریم؛ ایک ساتھی جو سفر میں بچھڑ گیا ۔ ریاض بلوچ

395

شہید ثاقب کریم؛ ایک ساتھی جو سفر میں بچھڑ گیا

تحریر: ریاض بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

عید کی رات تھی، گھر میں بچے دنیا اور جہاں سے بے گمان خوشی منا رہے تھے، ہاتھوں پہ مہندی لگا رہے تھے، کیوں کہ صبح عید تھی، بچوں کو دیکھ کر خوش ہورہا تھا اور انکی خوشی میں اضافہ کرنے کیلئے زیر لب مسکرا دیتا تھا، لیکن اندر ہی اندر اس سوچ میں گھرا ہوا تھا کہ عید کے دن حسبِ معمول بلوچستان میں جبری لاپتہ افراد کے لواحقین پھر سڑکوں پہ نکلیں گے، پریس کلبز کے سامنے آ کر دھرنا دیں گے، بچے، بوڑھے، جوان، ہماری مائیں بہنیں اپنے پیاروں کی جدائی کے غم میں نڈھال ہو کر روئیں گے اور ایک ہم جو اتنے دور بیٹھے بے بس ان کیلئے کچھ بھی نہیں کر سکتے، سوائے ایک دو مذمتی اور اظہارِ یکجہتی کے ٹویٹ اور پوسٹ کے، کبھی انکو روتے دیکھ کر سوچتے رہتے کہ کاش ہم بھی وہاں انکے ساتھ کھڑے ہوتے اور انکے آنسو پونچھتے یا انکے ساتھ کھڑے ہو کر رو لیتے تاکہ دل کا بھاری بوجھ ہلکا ہو جاتا۔

اسی سوچ میں پڑے موبائل کو ٹٹول رہے تھے، کبھی ٹویٹر تو کبھی فیس بُک کو سکرول کرکے اوپر نیچے کھینچتے رہے کہ نیا کیا آیا ہے، تب واٹساپ کی گھنٹی بجی اور مسیج آ گئے میرے کسی قریبی ساتھی نے مسیجز بھیجے تھے، وہ مسیجز پڑھ کر میں ایکدم دنگ سا رہ گیا اور سکتے میں آ گیا، ایسا لگا جیسے زمین پھٹ پڑی اور آسمان سر پہ گرنے لگا ، وہ دوست بتا رہا تھا کہ “یار ثاقب کریم آزربائیجان میں وفات پا گئے ہیں”
میں نے کچھ دیر بعد خود کو سنبھالتے ہوئے دل کو تسلی دی کہ یہ ایسے ہی کسی نے بولا ہوگا، شاید جھوٹ ہوگا، میں نے اس پہ سوالوں کی انبار لگا دی اور اس ناکام کوشش میں لگا رہا کہ کیسے اس بات جھوٹ ثابت کروں جس کو میرا دل و دماغ قبول نہیں کر پا رہے تھے، سالوں کی جلا وطنی، اپنے زمین اور اپنے لوگوں سے دور، اپنوں کی جدائی اور ازیت کے درد پہلے کہاں کم تھے کہ یہ بری خبر سننے کو ملا –

ساری رات ثاقب جان کا چہرہ سامنے سے نہیں ہٹ رہا تھا، اسکے ساتھ گزارے گئے وہ لمحات، اسکی دوستی یاری، اسکی ہنسی مذاق، سب سے زیادہ اس بات پہ افسردہ تھا اور مجھے درد ہو رہا تھا کہ اسکی موت مادر وطن سے میلوں دور ہوئی ہے جب اسکے پاس وہاں کوئی اپنا نہیں تھا، سوچ رہا تھا کہ وہ خود ایسے کیسے جا کے سمندر میں ڈوبے گا؟ اسی خیالوں میں شہید ساجد حسین اور بانک کریمہ بلوچ کے واقعات بھی ایکدم ذھن میں گردش کرنے لگے، ان تمام سانحات کی نوعیت ایک جیسی تھی، تینوں مادر وطن کے عظیم فرزند، تینوں انقلابی اور فکری گھرانے اور سوچ سے منسلک، تینوں ریاستی جبر سے باغی جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے اور تینوں کی میت سمندر اور دریا کے پانی سے ملے، کیا یہ اتفاق ہو سکتا ہے؟

ایک شاطر اور مکار دشمن کے ہوتے ہوئے ہماری ذہن اور سوچ یہ ماننے کو ہرگز تیار نہیں تھی، سویڈن، کینیڈا یا آزربائیجان کی پولیس چاہے کوئی بھی رپورٹ بنا دیں، کیسے بھی آزاد اور خودمختار پولیس نظام رکھتے ہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ ہمارا دشمن بہت ہی چالاک ہے.

سویڈن کے بارے میں اتنا نہیں سنا ہے، لیکن کینیڈا کے بارے میں بہت سنا اور پڑھا ہے کہ وہاں پاکستانیوں کی ایک کثیر تعداد آباد ہے بلکہ وہاں کے ریاستی نظام، سرکار، عدلیہ، انتظامیہ میں انکی بہت اچھی خاصی انفلونس ہے، جبکہ آزربائیجان کے بارے میں سنا اور دیکھا بھی ہے، آزربائیجان کا آرمینیا کے جنگ کے دوران پاکستان نے فرنٹ لائن پہ آزربائیجان کی ہر طرح کی حمایت کی تھی، اس وقت وہاں لوگ آزربائیجانی جھنڈوں کے ساتھ باقاعدہ پاکستانی جھنڈے لہراتے تھے، اپنے گھروں اور گاڑیوں تک لگاتے تھے، میں نے کئی ایشین ممالک کا سفر کیا لیکن آزربائیجان واحد ملک ہے جہاں پاکستانی سمجھ کر آپکی عزت کی جاتی ہے، یہ دیکھ کر ہم تو حیران ہوئے تھے، اب کسی ایسے ملک میں اگر کوئی بلوچ پناہ گزین جو یو این ایچ سی آر میں پاکستانی ریاست سے باغی ہوکر سیاسی پناہ حاصل کرے اس کو خطرہ تو لاحق ہوگا، ثاقب کریم بنیادی طور پر آزربائیجان میں پناہ لینے نہیں گیا تھا لیکن حالت کی مجبوری میں اسے وہاں رہنا پڑا اور وہ وہاں غیر محفوظ بھی محسوس کرتا تھا، جس کا ذکر بھی وہ کئی بار کر چکے ہیں وہ وہاں سے نکلنا بھی چاہتے تھے اس نے یو این ایچ سی آر کو بارہا لکھا تھا اور کہا تھا کہ اسے کسی تیسری ملک بھیج دیں.

ثاقب کریم کے خاندان میں اسکے دو بھائیوں سمیت کئی لوگ ریاستی جبر سے شہید ہو چکے ہیں، اسکے بڑے بھائی طارق کریم کو 21 اکتوبر 2010 میں کراچی کے علاقے گلستان جوہر سے پاکستانی خفیہ ایجنسی اور رینجرز کے اہلکاروں نے جبری اغواء کرنے کے بعد اسکی انتہائی حالت میں مسخ شدہ لاش 11 مئی 2010 کو سریاب روڑ کوئٹہ سے ملی، جس کو پہچاننا بھی مشکل تھا۔

طارق کریم کی جبری گمشدگی کے خلاف اسکے بھائی عاصم کریم نے اگلے دن کوئٹہ میں پریس کانفرنس کیا تھا اسکے بعد اسکو بھی 29 اکتوبر کو کوئٹہ سے جبری لاپتہ کیا گیا اور اسکی لاش 31 نومبر 2010 کو پشین کے علاقے خانو زئی سے برآمد ہوئی۔

9 اکتوبر 2013 میں انکے خاندان کے قریبی رشتہ داروں کے گھر بسیمہ میں فورسز نے آپریشن کیا وہاں ایک ہی خاندان کے تین افراد کو شہید کیا گیا، جن میں شہید ظفر، شہید یوسف اور شہید حلیمہ شامل ہیں جبکہ اسی خاندان کے سات بچوں کو زخمی کرکے فورسز دو افراد کو غیر قانونی حراست میں لے گئے۔

شہید ثاقب کریم گریجویشن کرنے کے بعد کچھ سال اسلام آباد میں رہے اور وہاں نوکری بھی کرتے رہے لیکن حالات اور ریاستی جبر کی وجہ سے انہیں وہاں سے نکلنا پڑا، کچھ سال اس نے خلیج میں بھی گزارے اور آزربائیجان چلے گئے۔

شہید ثاقب، زمانہ طالب علمی میں بی ایس او آزاد کے فکری اور نظریاتی ساتھی رہے ہیں، 2013 میں وائس فار بلوچ مسسنگ کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ اور بلوچ جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کے طویل لانگ مارچ میں وہ پنجاب سے انکے ساتھ رہے اور وہ اس عظیم جدوجہد کا بھی حصہ رہے۔

جلاوطنی کی زندگی میں وہ باقاعدہ تو کبھی کسی سیاسی جماعت سے منسلک نہیں رہے، لیکن وہ ہمیشہ بلوچ آزادی پسند جماعتوں اور لیڈر شپ کے اتحاد اور یکجہتی کے خواہاں رہے ہیں وہ سب کی حمایت کرتے تھے کسی پہ بے جا تنقید یا اس کو ذاتی پسند یا نا پسند کی بنیاد پہ مخالفت کے خلاف تھے ، کسی مجلس میں اس نے کہا تھا کہ “میں کسی جماعت کا باقاعدہ رکن نہیں ہوں بلکہ خود کو بلوچ جھدِ آزادی کا ایک کارکن مانتا ہوں، تمام پارٹیوں اور لیڈرز کی قدر اور احترام کرتا ہوں ” انہوں نے سوشل میڈیا پہ بلوچ ایکٹیوسٹس کو یکجا کرنے کیلئے پہلی دفعہ بلوچ سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ یا “BSMA” کے نام سے ٹویٹر گروپ بنایا تھا جس میں اس نے تمام تنظیموں کے ایکٹیو ممبران اور آزاد سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس کو یکجا کیا تھا، وہ اس بات پہ نالاں رہتے تھے ہم سوشل میڈیا پہ کیوں ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں؟ ہر کوئی اپنا الگ سے کمپیئن چلاتا ہے؟ یا اپنے پارٹی یا پارٹی لیڈران کو ہی پروموٹ کرتا ہے، اس کا ماننا تھا کہ تمام سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس بلوچستان کے پہ جاری ریاستی مظالم کو دنیا کے سامنے آشکار کرنے کیلئے متحد ہو کر مہم چلائیں، بلکہ کچھ خاص دنوں میں ایک ساتھ کمپیئن چلائیں تاکہ انکی آواز مضبوط اور موثر ہو سکے، جیسا کہ تیرہ نومبر کو شہدائے بلوچستان کا دن یا 27 مارچ کو جبری قبضے کے دن.

ثاقب جان ایک ساتھی تھا، ایک مھروان سنگت تھا جو ہم سے بچھڑ گیا، ایک ایسا ساتھی جو بھلایا نہیں جا سکتا، اسکی یادیں ہماری ساتھ رہیں گے، ہم اپنی بے بسی میں شاید اس کا آزربائیجان میں قتل ثابت نا کرسکیں، لیکن ہم یو این ایچ سی آر، انسانی حقوق کی اداروں، آزربائیجان حکومت سے یہ اپیل کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ اسکی پراسرار موت کا تحقیقات کریں اور سچ سامنے لائیں، ہم اگر یہ مان بھی لیں کہ ثاقب جان کی موت سمندر میں اپنے آپ ڈوب جانے سے پیش آیا ہے، لیکن اس کو شہادت کا درجہ حاصل ہے، وہ راہِ حق کے ایک سچے سپاہی تھے اور ایک مقدس کاز کیلئے تا دم مرگ جدوجہد کر رہے تھے –

اسکی مسکراتے اور وکٹری بناتے تصویر کے ساتھ وہ لمحات بھی پل پل دل پہ نقش ہیں جو باکو میں ہم نے ساتھ گزارے تھے، ہم فخریہ کہیں گے ہاں ایک ساتھی اور بھی تھا جو راہ حق میں امر ہو گیا –


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں