سندھ و بلوچستان میں پشتون مسائل پر جرگہ

560

پشتون تحفظ موومنٹ نے سندھ اور بلوچستان میں پشتونوں کو درپیش مسائل کے حوالے سے بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں “پشتون قومی جرگہ” کے نام سے ایک اجلاس منعقد کیا ۔

سہ پہر کو شروع ہونے والے جرگہ میں مقررین نے بالخصوص دو موضوعات پر بات کی، جرگے کے ایجنڈے کا پہلا موضوع سندھ میں مقیم پشتونوں کے خلاف تشدد اور دوسرا موضوع بلوچستان میں زیارت اور ہنہ اوڑک میں پشتونوں پر ہونے والے مبینہ ظلم و ستم ہے۔

جرگے میں مختلف سیاسی سوچ رکھنے والے افراد، تاجروں اور کارکنوں نے شرکت کی۔

سیاستدان اورنگزیب کاسی نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان کے دیگر شہروں میں رہنے والے پشتونوں کے تحفظ کے لیے کمیٹیاں بنائی جائیں۔

ان کے مطابق کمیٹیوں کا کام سندھ میں حالیہ تشدد جیسے واقعات میں پشتونوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہونا چاہیے۔

انجمن تاجران کے رکن حاجی نصرالدین نے جرگہ سے خطاب میں کہا کہ سندھ میں پشتون صرف مزدوری اور روزی کمانے کے لیے رہ رہے ہیں۔ ایک اور تاجر، قیوم آغا نے کہا کہ سندھ کے حیدرآباد میں دو آدمیوں کے درمیان تصادم ہوا تھا اور یہ مناسب نہیں تھا کہ ردعمل “اتنا وسیع” ہو۔

مقررین نے سندھ کے شہر حیدرآباد میں ایک سندھی کے قتل کے بعد سندھیوں اور پشتونوں کے درمیان تشدد کی طرف اشارہ کیا جو بلوچستان کے کئی پشتون آبادی والے علاقوں تک پھیل گیا۔

14 جولائی کو سندھ کے مرکز کراچی سمیت حیدرآباد، کشمور اور دیگر کئی مقامات پر احتجاج اور ہنگامے ہوئے، تشدد کے یہ واقعات 12 جولائی کو حیدرآباد کے بائی پاس روڈ کے قریب ایک ریسٹورنٹ میں تصادم کے بعد پیش آئے ہیں جس میں ایک سندھی شہری بلال کاکا ہلاک ہوگیا تھا۔

پولیس کے مطابق تصادم کھانے کی بل کی عدم ادائیگی پر ہوا اور ریسٹورنٹ کا مالک پشتون ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں نے شاہ سوار نامی پشتون کو قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔

اس واقعے کے بعد سندھ کے کئی شہروں میں لوگوں نے زبردستی پشتون ٹی ہاؤسز اور ریستوران بند کر دیئے ، سوشل میڈیا پر ایسی متعدد ویڈیوز شائع ہوئی ہیں جن میں سندھ کے چند اضلاع میں نوجوان پشتون دکانوں اور ریستورانوں پر جاتے ہیں اور ان سے درخواست کرتے ہیں کہ یہ سب کچھ فوری طور پر بند کر دیا جائے اور وہاں کاروبار کرنا بند کیا جائے۔

سندھ پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں نے 14 جولائی کے احتجاج اور لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچانے کے الزام میں 60 سے زائد افراد کو گرفتار کیا ہے۔ ان میں سے 40 افراد کو کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ سے گرفتار کیا گیا ہے۔

پشتون تحفظ موومنٹ کے ایک رکن نے جرگہ سے اپنے خطاب میں ایک الگ موضوع پر بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ بلوچستان کے پشتون آبادی والے علاقے ہرنائی میں بھی لوگوں کو مسائل کا سامنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں ان کے پاس صرف وردی میں ملبوس لوگ آتے تھے اور ان سے ٹیکس لیتے تھے اور اب ان کے بقول دن کے وقت ’’یونیفارم اور رات کو سادہ کپڑوں میں ملبوس لوگ‘‘ آتے ہیں اور ان سے ٹیکس مانگتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہرنائی اور زیارت میں کوئی مسلح یا علیحدگی پسند گروپ موجود نہیں ہے اور نہ ہی کام کر رہے ہیں، لیکن ان کے مطابق اس سب کے پیچھے ان کی اپنی حکومت ہے۔

جبکہ بلوچستان لیویز فورس کا ایک بیان میں کہنا ہے کہ بلوچ آزادی پسندوں نے زیارت میں فوج کے ایک کرنل کو اغواء کر کے قتل کر دیا تھا اور اس کے جواب میں وہ سرچ آپریشن کر رہے تھے اور دو عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا تھا۔

بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے 13 جولائی کو ایک بیان میں پاکستان فوج کے کرنل لئیق بیگ مرزا کے اغواء کی ذمہ داری قبول کی۔

بی ایل اے کی جانب سے 14 جولائی کو میڈیا کو بھیجے گئے دوسرے بیان میں ان کا کہنا تھا کہ وہ فوجی افسر کو 12 جولائی کو بلوچستان کے علاقے زیارت سے اپنے ساتھ لے گئے اور بعد ازاں انہیں سزائے موت دے دی گئی۔