سائرہ کی کہانی – ٹی بی پی فیچر رپورٹ

921

سائرہ کی کہانی

ٹی بی پی فیچر رپورٹ

آصف بلوچ

“ایک عام سا وٹساپ نوٹیفیکشن، ہماری زندگی اس قدر بدلنے والا ہے، میسج کھولنے سے قبل ہمیں اسکا اندازہ تک نہیں تھا۔” یہ کہنا ہے بلوچستان کے سب سے بڑے ضلع، خضدار سے تعلق رکھنے والی سائرہ بلوچ کا، جو بلوچستان میں لاپتہ افراد کیلئے جاری مختلف احتجاجوں میں تواتر کے ساتھ آتی ہے۔

اس وقت دنیا میں کروڑوں لوگ پیغام رسانی یا دیگر معلومات تک رسائی کے لئے وٹس ایپ جیسی اپیلیکشن کا استعمال کرتے ہیں۔ ان صارفین میں سے ایک بلوچستان کے ضلع خضدار کے رہائشی سائرہ بلوچ ہیں۔ سائرہ کا کہنا ہے کہ ” ہم ایک معمول سی خوشحال زندگی گزار رہے تھے، ایک دن مجھے ایک وٹس ایپ میسج موصول ہوا، کھول کر دیکھا تووہ دی بلوچستان پوسٹ کے ایک خبر کا لنک تھا، جس پر میرے بھائی آصف اور کزن رشید بلوچ  کی تصاویر آویزاں تھیں۔ بلوچستان میں جب کسی کی تصویر میڈیا پر نظر آجائے تو یہ کبھی بھی کوئی اچھی خبر نہیں ہوتی، تفصیلات جاننے کیلئے جب میں نے لنک کھولا تو میرے پاوں تلے زمین کھنچ گئی۔ پتہ چلا کہ میرے بھائی اور کزن کو انکے دوستوں کے ہمراہ فوج نے ضلع نوشکی سے حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا ہے۔”

سائرہ بلوچ اس وقت ضلع خضدار کے علاقے کٹھان میں رہائش پذیر ہیں، اس سے قبل وہ ضلع خضدار کے ہی ایک نواحی گاوں نوغے میں اپنے خاندان کے ہمراہ رہتی تھیں۔ خضدار منتقل ہونے کی وجہ سائرہ یوں بتاتی ہے کہ “گاوں میں اچھی تعلیم اور دیگر سہولیات کے فقدان کی وجہ سے ہم خضدار شہر منتقل ہوئے، جہاں میرے بھائی آصف بلوچ کو ٹیلی فون آپریٹر کی نوکری مل گئی۔ کچھ وقت تک ہم ایک کرائے کے گھر میں وقت گذارتے رہے، لیکن جب آصف لیویز فورس میں بھرتی ہوئے تو انہیں سول کالونی میں ایک کوارٹر مل گیا، جس کے بعد ہم وہیں منتقل ہوگئے۔”

واضح رہے، 31 ستمبر 2018 کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے میڈیا کو ایک بریفینگ دیتے ہوئے یہ دعوی کیا تھا کہ بلوچستان کے ضلع نوشکی کے علاقے زنگی ناوڑ میں خفیہ اطلاع پر ایک آپریشن کرکے گیارہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، جبکہ یہ بھی دعوی کیا گیا تھا کہ اس دوران فائرنگ کے تبادلے میں ایک شخص جانبحق بھی ہوا ہے۔ بعد ازاں ان گرفتار افراد کی تصاویر بھی میڈیا میں جاری کی گئی تھیں۔

جب سائرہ سے پوچھا گیا کہ انکا بھائی اور کزن نوشکی کیوں گئے تھے تو سائرہ کا کہنا تھا “میری دو بہنیں تھائیرائیڈ کے مرض کا شکار ہیں، ہم ڈاکٹروں کے چکر لگاتے رہے، لیکن انکی طیبعت میں کوئی فرق نہیں آرہا تھا، جب آپ کا کوئی پیارا بیماری میں مبتلا ہو تو پھر آپ ہر ایک راستہ اپنانے کو تیار ہوتے ہیں۔ آصف کو کسی نے بتایا کہ نوشکی میں ایک حکیم ہے، جو اس طرح کی بیماریوں کے علاج کے لئے شہرت رکھتے ہیں۔ مجبوری انہیں نوشکی لے گئی۔ وہاں وہ ہمارے کزن کے ہمراہ گئے تھے، واپسی سے پہلے وہ نوشکی کے اپنے چند دوستوں سے ملے اور پھر ان کے ہمراہ نوشکی کے ایک مشہور پکنک پوائنٹ زنگی ناوڑ  پکنک منانے چلے گئے، پھر وہیں سے فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی کا شکار ہوئے۔ زنگی ناوڑ کوئی مشکوک یا ممنوعہ علاقہ نہیں بلکہ ایک معروف پکنک پوائنٹ ہے، جہاں ہمیشہ لوگوں کی آمدورفت لگی رہتی ہے۔”

سائرہ کہتی ہیں کہ محض انکے بھائی آصف اور رشید ہی جبری گمشدگی کا شکار نہیں ہوئے بلکہ انکے ہمراہ موجود تمام ساتھی بھی لاپتہ کردیئے گئے تھے، جن میں میر احمد سمیع ولد رحمت اللہ، عبدالرب ولد حاجی عبدالمجید، بلال احمد ولد میر احمد بلوچ، میرا کزن عبدالرشید ولد عبدالرزاق اور میرا بھائی محمد آصف ولد محمد پناہ شامل تھے۔ جن میں دیگر تمام کو وقتا فوقتا رہا کر دیا گیا، جبکہ آصف اور رشید تاحال لاپتہ ہیں۔

تصویر: زیر حراست آصف بلوچ و رشید بلوچ

بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا موجودہ سلسلہ ایک نیا سَراٹھاتا مسئلہ نہیں بلکہ اسکی شروعات رواں صدی کے آغاز سے ہی شروع ہوچکا تھا۔ معلوم ریکارڈ کے مطابق ۱۸ اکتوبر ۲۰۰۱ کو بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں ڈگری کالج کوئٹہ کے سامنے سے مبینہ طور پر پاکستانی فورسز کے اہلکار دو افراد کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کرتے ہیں، بعدازاں دونوں کی شناخت علی اصغر بنگلزئی اور  محمد اقبال کے ناموں سے ہوتی ہے، ان میں سے محمد اقبال کو چوبیس روز بعد رہا کردیا جاتا ہے جبکہ علی اصغر بنگلزئی دو دہائیاں گزرنے کے باوجود تاحال لاپتہ ہیں۔

اسی طرح کے ایک اور واقعے میں فروری 2009 بروز جمعہ کوئٹہ کے علاقے سریاب روڈ کیچی بیگ میں واقع ایک گھر سے مبینہ طور پر فورسز نے بلوچ ریپبلکن پارٹی کے مرکزی سیکٹری اطلاعات جلیل ریکی کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا اور تین سالوں کی طویل گمشدگی کے بعد ۲۴ نومبر ۲۰۱۱ کو جلیل ریکی اور ٹھیکیدار یونس بلوچ کو قتل کرکے ان کی مسخ شدہ لاشیں ضلع کیچ کے تحصیل مند بلو کے پہاڑی علاقے میں پھینک دی گئی۔

بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کے ان خلاف ورزیوں اور جبری گمشدگیوں کے خلاف کوئی توانا آواز موجود نہیں تھی۔ ان عوامل کو مد نظر رکھتے ہوئے لاپتہ علی اصغر بنگلزئی کے بھانجے نصر اللہ بلوچ اور جلیل ریکی کے والد گرامی ماما قدیر بلوچ نے جولائی ۲۰۰۹ کو لاپتہ افراد کے لواحقین کی ایک تنظیم تشکیل دی۔ جسکا نام “وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز” رکھ دیا گیا۔ جس کے بعد سے تادم تحریر یہ تنظیم سراپا احتجاج ہے۔

جب سائرہ بلوچ سے پوچھا گیا کہ کیا انہوں نے آصف اور رشید کی بازیابی کیلئے باقی لواحقین کی طرح کوئی راستہ اختیار کیا ہے؟ تو انکا کہنا تھا “شروع دنوں میں ہم نے علاقائی معتبرین کے دروازوں پر دستک دی، ہر جگہ ہمیں طفل تسلیوں کے علاوہ کچھ نہیں ملا، اسکے بعد ہم بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل کے پاس گئے کہ وہ کوئی کردار ادا کرے، لیکن انہوں نے یہ کہہ کر ہم سے معذرت کی کہ اگر میں کچھ کرسکتا تو اپنے بھائی کے لئے کرتا۔ ( اختر مینگل کے بڑے بھائی اسد اللہ مینگل اور انکے ایک دوست احمد شاہ کو فروری ۱۹۷۴کو کراچی سے لاپتہ کیا گیا تھا۔) جب ہم نے دیکھا کہ انکے دیگر دوست ایک ایک کرکے رہا ہورہے ہیں تو ہماری تھوڑی سی ہمت بندھی اور ہم انکے رہائی کا انتظار کرنے لگے، لیکن طویل عرصہ گذرنے کے بعد بھی کوئی خیر کی خبر نہیں آئی تو پھر ہم نے آواز اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ سب سے پہلے ہم نے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز میں آصف اور رشید کے کوائف جمع کیئے اور احتجاج شروع کردیا۔ کچھ عرصے بعد حکام نے ہم سے رابطہ کیا، اور جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کا کہا۔ میں کبھی نوشکی تو کبھی کوئٹہ و کراچی تفتیش کے حوالے سے جاتی رہی۔ ایک طویل عرصہ گزرنے کے بعد جے آئی ٹی نے ہمیں جواب دیا کہ میرا بھائی اور کزن اُنکی حراست میں نہیں ہیں۔ یہ ہمارے لیئے باعث حیرت اور تشویش تھی، کیونکہ فورسز خود میڈیا میں انکی گرفتاری اور تصاویر جاری کرچکے ہیں۔”

اس بارے میں سائرہ مزید کہتی ہیں کہ “ان کی جبری گمشدگی کو سی ٹی ڈی اور فورسز کی مشترکہ کاروائی کا نام دیکر پاکستان کے بڑے اخبارات میں خبر چھاپا گیا تھا جبکہ مین اسٹریم میڈیا کے نیوز چینل پر براڈکاسٹ بھی کیا گیا تھا۔ اخبارات کے وہ تراشیں اور نیوز چینل پر ہیڈلائنز کی وڈیو ہمارے پاس اب بھی موجود ہیں لیکن ان تمام ثبوت و شواہد کے باوجود اب فورسز انکاری ہیں۔”

لاپتہ افراد کے بابت بنائے گئے جے آئی ٹی سے سائرہ بلوچ مایوس نظر آتی ہیں، جس کی وجہ بتاتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ “جے آئی ٹی اور دیگر جگہوں پہ ہم یہی امید لے کر جاتے ہیں کہ کہیں سے ہمیں اپنے پیاروں کی کوئی اچھی خبر سننے کو ملے، مگر وہاں جاکر دیگر ذہنی اذیتیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تمام ثبوت و شواہد موجود ہونے کے باوجود، پہلے تو ہمیں یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ ہم ان کے لواحقین ہیں، پھر حراساں کرنے کیلئے ہزاروں الٹے سیدھے سوالات پوچھے جاتے ہیں، جن میں یہ ثابت کرنے کی کوشش ہوتی ہے کہ اسطرح کا کوئی شخص ہی اس دنیا میں وجود نہیں رکھتا اور بس ہم ایک کہانی بناکر آئے ہیں۔”

“نوغے سے خضدار ہم ایک خوشحال مستقل کی تلاش میں آئے تھے، تاکہ ہمارے مشکلات میں کمی ہو اور ایک سنہرے مستقبل کا خواب شرمندہ تعبیر ہو۔ بھائی کے جبری گمشدگی سے قبل میں کبھی خضدار سے باہر گئی ہی نہیں تھی، میری تمام تر توجہ تعلیم پر تھی، جب میرے بھائی لاپتہ ہوئے میں آٹھویں جماعت میں پڑھ رہی تھی اور میرا شمار کلاس کے  ٹوپرز میں ہوا کرتا تھا۔ مگر بھائی کے لاپتہ ہونے کے بعد مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ میں پڑھنا لکھنا بھول رہی ہوں، بمشکل اپنے سالانہ امتحان پاس کرپا رہی ہوں۔ اس کے علاوہ ایک کمسن لڑکی جس نے اس سے پہلے خضدار سے باہر کبھی پیر تک نہیں رکھا تھا، اب ہر ماہ کبھی کوئٹہ تو کبھی کراچی اور کبھی اسلام آباد میں احتجاجی مظاہروں میں شامل ہونے کے لئے جاتی ہوں اور کبھی نوشکی کبھی کوئٹہ میں جے آئی ٹی میں پیش ہونے کے لئے اکیلی جاتی ہوں۔” سائرہ آنسووں کو ضبط کرتے ہوئے اس سوال کا جواب دیتی ہے کہ بھائی کی جبری گمشدگی نے اسکی زندگی پر کیا اثر ڈالا۔

تصویر: وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز احتجاجی کیمپ، کوئٹہ

ایک توقف کے بعد وہ مزید کہتی ہیں “گذشتہ ماہ عید کے دن جب میں کوئٹہ میں ایک احتجاج میں شامل ہونے کے بعد جب دوسرے دن گھر پہنچی، ابھی تک میں نے اپنا بیگ تک نہیں کھولا تھا کہ مجھے کال آئی کہ اگلے دن نوشکی پہنچ جاوں کیونکہ میرا جے آئی ٹی میں پیشی ہے، میں  بنا سستائے ایک امید کے ساتھ بنا بیگ کھولے نوشکی کیلئے نکل گئی۔”

بھائیوں کے گمشدگی کے بعد انکے اہلخانہ کے زندگی پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں سائرہ کہتی ہیں “بھائیوں کی جبری گمشدگی کی خبر آتے ہی ہماری زندگی مکمل بدل گئی، بھائیوں کے جدائی کا درد ہمیں ایک طرف کھا رہی تھی، وہیں دوسری مصیبتیں بھی ہمارے سر پر گرنے لگیں، ہم جس سرکاری کوارٹر میں رہائش پذیر تھے، ہمیں اطلاع دیئے بغیر آکر ہمارا تمام سامان باہر پھینک دیا گیا کیونکہ گمشدگی کی وجہ سے بھائی کی نوکری چلی گئی تھی۔ میرے والد صاحب کرائے کے مکان کی تلاش میں نکلے تو راستے میں انکا ایکسیڈنٹ ہوگیا اور انکا ایک پیر ٹوٹ گیا۔ اس وقت ہمیں کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ کریں تو کیا، ایک طرف بھائیوں کی جبری گمشدگی تو دوسری طرف بےگھر ہونا۔”

انہوں نے الزام لگایا کہ بھائیوں کی جبری گمشدگی پر انہیں چپ رہنے کیلئے مختلف ذرائع سے دھمکانے کی کوشش کی گئی اور سختی کے ساتھ یہ تاکید کی گئی کہ اگر ہم سے کوئی یہ پوچھے کہ آیا ہم آصف اور رشید کو جانتے ہیں تو منع کردیں، سائرہ کے مطابق انکے مبائلوں سے بھائیوں کے تصاویر بھی ڈیلیٹ کروائے گئے۔

لاپتہ آصف اور رشید  دونوں شادی شدہ ہیں، آصف کی تین بیٹیاں ہیں، جنکا نام انہوں نے خود کوثر، گلناز اور ماہ لیکہ رکھا تھا اور رشید کی ایک بیٹی ماہ گل ہے۔ سائرہ کے مطابق لاپتہ آصف بلوچ لیویز فورس میں کام کرتے تھے جبکہ رشید بے روزگاری سے تنگ ایک مقامی اسٹشنری پر سو روپے روزانہ دیہاڑی پر کام کرنے پر مجبور تھے۔

“جب بھی میں احتجاج و مظاہروں میں شرکت کے لئے جاتی ہوں، تو واپسی پر میرے بھائیوں کی بچیاں دروازے پہ آکر صرف ایک ہی سوال کرتی ہیں کہ آپ ہمارے ابو کو لانے گئے تھے، وہ کیوں نہیں آئے؟ اب ہمارے گھر میں اچھے کھانے تک نہیں پکتے کیونکہ جب بھی کوئی اچھا سا کھانا پکتا ہے تو میری ماں رات کو نیند سے اٹھ اٹھ کر رونا شروع کردیتی ہے کہ پتہ نہیں انکے بچوں کو کھانا نصیب بھی ہوا ہے کہ نہیں۔” سائرہ ان الفاظ کے ساتھ آنسوں پر ضبط کھودیتی ہے۔

بلوچ قوم پرست جماعتیں یہ دعوی کرتے ہیں کہ بلوچستان میں جاری یہ ماورائے قانون جبری گمشدگیاں نئی نہیں بلکہ یہ سلسلہ گذشتہ ستر سالوں سے جاری ہے۔

میرے بھائیوں کی بچیاں دروازے پہ آکر صرف ایک ہی سوال کرتی ہیں کہ آپ ہمارے ابو کو لانے گئے تھے، وہ کیوں نہیں آئے؟ – سائرہ

ستر کی دہائی میں معروف بلوچ قوم پرست رہنما شیرو مری نے ایک انٹرویو میں پاکستانی فوج پر یہ سنگین الزام لگایا تھا کہ فوج انتقامی جذبے کے تحت کمسن بلوچ لڑکیوں کو اٹھا کر پنجاب کے منڈیوں میں فروخت کررہا ہے۔ انکا دعویٰ تھا کہ بیشتر لڑکیوں کے والدین اپنا سب کچھ بیچ کر، پیسے جوڑ کر اپنی بیٹیاں جسم فروشی کے اڈوں سے واپس خرید کر گھر لاتی ہیں۔

فروری 1974 کو بلوچ بزرگ رہنما مرحوم عطاء اللہ مینگل کے فرزند اسد جان مینگل اور انکے ساتھی احمد شاہ بلوچ کو کراچی سے لاپتہ کیا گیا تھا۔ اسد اللہ مینگل اپنے دوست احمد شاہ کرد کے ہمراہ رات کو بلخ شیر مزاری کے گھر گئے تھے، مگر بلخ شیر مزاری گھر میں نہیں تھے۔ کسی نے گھر کا دروازہ کھولا اور اسداللہ مینگل اور ان کے دوست اندر گئے اور بیٹھ گئے۔ کچھ ہی دیر بعد مسلح افراد گھر میں گھسے اور انہیں گھسیٹ کر گاڑیوں میں ڈال دیا۔ برسوں گذرنے کے بعد سابق آئی ایس آئی چیف حمید گل نے اعتراف کیا کہ انہیں فوج اٹھا کر لے گئی تھی اور دوران تشدد وہ جانبحق ہوئے تھے۔ جسکے بعد لواحقین کو اطلاع کیئے بغیر انہیں دفنا دیا گیا تھا۔

لاپتہ بلوچوں کی بازیابی کیلئے کوشاں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مطابق لاپتہ افراد کی تعداد پچاس ہزار سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل نے پانچ ہزار لاپتہ افراد کی تفصیلات پاکستان کے قومی اسمبلی میں جمع کی ہیں۔

سائرہ کی طرح اس وقت ہزاروں کی تعداد میں ان لاپتہ افراد کے لواحقین اسلام آباد، کراچی اور کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف شہروں میں روزانہ پریس کلبوں کے سامنے احتجاج کیلئے بیٹھتی ہیں۔ لیکن ہر روز پریس کلبوں کے سامنے بیٹھے ان احتجاجیوں کی تعداد زیادہ اور اخبارات میں انکی خبروں کی جگہ کم ہوتی جارہی ہے۔