زیارت جعلی مقابلے کیخلاف تربت میں احتجاج

201

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے زیارت واقعے کے خلاف تربت میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا

مظاہرین نے تربت پریس کلب سے شہید فداء چوک تک ریلی نکالی، مظاہرین نے شہید فداء چوک پر دھرنا دیکر زیارت واقعہ کے خلافشدید نعرہ بازی کی

تربت مظاہرین کا کہنا تھا کہ ہمیں دیکھنا چائیے کہ ہمارے ڈاکٹر انجینئر و دیگر تعلیم یافتہ لوگوں کو کیوں ایسے بے دردی سے قتل کیاجارہا اب تک ہمارے درجنوں تعلیم یافتہ افراد قتل کردیے گئے ہیں یا زیر حراست سالوں زندانوں میں رکھے ہوئے ہیں اسکی وجہ ہماریخاموشی ہے ہمیں اس کے خلاف شدید ردعمل دینا چاہیئے تاکہ مزید زیارت جیسے واقعات رونما نا ہوں

مظاہرے میں بلوچ یکجہتی کمیٹی و طلباء تنظیموں کے کارکنان لاپتہ افراد کے لواحقین و انسانی حقوق کے تنظمیوں کے رہنماء شریکہوئے

مظاہرین سے گفتگو کرتے ہوئے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کوآرڈینیٹر پروفیسر غنی پرواز بلوچ کا کہنا تھا کہ اسلام و دیگرمذاہب اور جمہوری ممالک میں انسان اشرف المخلوقات اور اسکے حقوق قابل احترام ہیں ایچ آر سی پی سمیت بینل اقوامی انسانیحقوق کے ادارے اسلئے کہتے ہیں کہ انسان  کوئی بھی ہو کسی بھی رنگ نسل سے تعلق رکھتا ہوں اسے ماورائے آئین و قانون حراستمیں رکھنے کی اجازت کسی کو بھی نہیں جعلی مقابلے میں کسی کو قتل کرنا قانونی نہیں وحشیانہ طریقہ واردات ہے

انہوں نے کہا مشرف سے لیکر حالیہ دور تک بلوچستان میں غیر آئینی اقدامات لوگوں کو اغواء و قتل کرنا جاری ہے اب تک درجنوںواقعات میں لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں قتل کیا گیا ہے

ایچ آر سی پی رہنماء کا کہنا تھا کہ زیر حراست افراد کو گھروں سے اٹھا کر مقابلے کے نام پر قتل کیا گیا ریاست جب مسلح تںطیموںکا مقابلہ نہیں کرسکتی  تو عام زیر حراست افراد کو قتل کرتی ہے اس سے قبل بھی ریاست ایسے کہی حرکت کرچکا ہے ایچ آر سیپی ریاستی اداروں کی ایسے عمل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے اور تمام لاپتہ افراد کی فوری بازیابی کا مطالبہ کرتی ہے

ایچ آر سی پی رہنماء کے مطابق پچاس ہزار کے قریب بلوچ لاپتہ کردئے گئے ہیں اور ہزاروں قتل کر کے فورسز نے پھینک دئے ہیںبلوچستان میں اگر حالات کو قابو کرنا ہے تو طاقت کے استعمال کو ترک کرنا چاہئے اور لاپتہ کو منظر عام پر لاکر انصاف و قانون کےتحت فیصلے کئے جانا چاہئے وگرنا صورتحال مزید بگاڑ کے طرف جائینگے

مظاہرین میں دو ماہ قبل راولپنڈی سے جبری گمشدگی کا شکار فیروز بلوچ کے والد بھی شریک تھیں

فیروز بلوچ کے والد نور بخش بلوچ نے بتایاکہ میرے بچے کو دؤران تعلیم لاپتہ کردیا گیا اب دو ماہ گزر گئے مجھے معلوم نہیں وہ کہاںاور کس حال میں ہے فیروز اپنی تعلیم کے غرض سے راولپنڈی میں موجود تھا۔

لاپتہ فیروز بلوچ کے والد کا کہنا تھا کہ میں تمام متعلقہ اداروں سے بیٹے کی بازیابی کا مطالبہ کرتا ہوں  اگر میرے بیٹے نے کوئی گناہکیا ہے تو اسے عدالتوں میں پیش کیا جائے اور مجھے انصاف فراہم کیا جائے

اس موقع پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کے بانک سفیہ بلوچ کا کہنا تھا کہ ریاست کا رویہ شروع دن سے بلوچوں کے ساتھ ایک غیرمنصفانہ نرویہ رہا ہے 2004، سے لوگوں کو اٹھا کر غائب کرنے کا سلسلہ ریاستی اداروں کی جانب سے بلوچستان میں شروع کیگئی جو ابتک جاری ہے پھر لاشیں پھینکنے کا سلسلہ بھی شروع ہوا تاکہ پاکستانی وفاق و فوجی ادارے بلوچوں کو اپنے حق کی آوازسے پیچھے دھکیل سکیں لیکن بلوچ ہمیشہ اپنی حق کی آواز کو بلند کرتا رہیگا اس سے قبل ریاست لوگوں کو چھپ کر قتل کیا جاتاتھا اب جھوٹے مقابلے میں قتل کرکے کہتا ہے کہ ہم نے شدت پسند مارے ہیں

مظاہرین کا کہنا تھا کہ زیارت میں قتل کئے گئے تمام افراد کی شناخت سالوں سے لاپتہ افراد کے ناموں سے ہوئی ہے لاپتہ افراد کےلواحقین روڈوں پر اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے تمام انصاف کے دروازوں پر دستک دے چکے ہیں بدلے میں لاشوں کی صورت میںاپنے پیاروں کو وصول کررہے ہیں ہزاروں لاشوں کو بغیر شناخت کے دشت کے کسی نامعلوم قبرستان میں دفن کردیا گیا ہے

انہوں نے مزید کہا کہ نام نہاد قوم پرست پارٹیاں  بلوچ نسل کشی پر بے بس ہیں لیکن اقتدار کے لئے بلوچ نام کو استعمال کرتے ہیںاس واقعہ سے ظاہر ہوا کہ اگر کبھی پھر سے کوئی ایسا واقعہ ہوا ریاست اپنا غصہ پھر سے پہلے زیر حراست افراد کو قتل کرکےاتاریگی اور سیاسی پارٹیاں صرف مذمتی بیان تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں