دہشت گردی کیس میں گرفتار حسنین بلوچ قیدیوں کو پڑھاتے منظر عام پر آگئے

1029

کوئٹہ میں ہدہ کے گلیوں اور تھڑوں سے نوجوانوں کو تعلیمی اداروں تک رسائی دینے والا حسنین بلوچ سینٹرل جیل کراچی میں بھی تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں، حسنین بلوچ جو کہ فرسٹ ایئر کا طالب علم ہے، کو چار سال قبل کوئٹہ سے جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا تھا بعد ازاں دہشت گردی کے الزامات میں سینٹرل جیل کراچی منتقل کردیا گیا لیکن حسنین بلوچ جیل کے اندر بھی اپنی سرگرمیاں جاری رکھتے ہوئے قید افراد کو تعلیم فراہم کررہا ہے-

انکے قریبی ذرائع کہتے ہیں کہ جیل کے اندر مختلف علوم کی کتابوں کا ایک مجموعہ ہے جو جیل کے اندر کسی بھی قیدی کے لیے دستیاب ہے، ملاقات کرنے والوں سے حسنین بلوچ کی ایک التجا ہے کہ جب بھی آئے ساتھ کتابیں اور پڑھنے و لکھنے میں استعمال ہونے والے اشیاء ضرور لائے تاکہ یہاں تعلیم سے دور رہنے والے نوجوان جو کہ مختلف کیسز میں قید ہیں ان کو تعلیم دلایا جاسکے-

حسنین بلوچ کراچی سینٹرل جیل میں کراچی میں چینی قونصلیٹ پر حملے میں سہولت کاری کے کیسز کی سزا کاٹ رہے ہیں نوجوان حسنین بلوچ چار سال قبل کوئٹہ سے اس وقت جبری گمشدگی کا شکار ہوئے جب پاکستانی خفیہ ادروں نے 28 نومبر 2018 کی رات کوئٹہ ہدہ میں انکے گھر پر چھاپہ مارا اس دوران حسنین کے ساتھ انکے بھائی جیئند بلوچ اور والد قیوم بلوچ بھی لاپتہ کردیے گئے تھیں-

حسنین، انکے والد اور بھائی کی جبری گمشدگی کے خلاف انکے لواحقین کی جانب سے احتجاجی مظاہرے بھی کئے گئے چند روز بعد حسنین کے بھائی اور والد بازیاب ہوئے جبکہ 12 جنوری 2019 کو سی ٹی ڈی نے حسنین سمیت پانچ افراد کی کراچی ملیر سے گرفتاری ظاہر کردی تھی-

کاؤنٹر ٹیرزم ڈپارٹمنٹ کراچی نے حسنین سمیت پانچ افراد کے خلاف کراچی میں چینی قونصلیٹ پر حملے میں ریکی کرنے اور حملہ آوروں کو رہائشی سہولیات فراہم کرنے کا الزام عائد کیا تھا جہاں پانچوں گرفتار افراد کا ٹرائل کراچی کے انسدادی دہشت گردی کے عدالت میں جاری ہے-

واضع رہے گرفتار ظاہر کئے گئے افراد میں سے عارف حسین چند روز قبل کراچی سینٹرل جیل میں پراسرار حالت میں مردہ پائے گئے تھیں، مذکورہ کیس میں سزا پانے والے عارف حسین کے لواحقین نے الزام عائد کی ہے کہ عارف کی موت دوران حراست پولیس تشدد سے واقع ہوئی ہے-

جبکہ ٹی بی پی کو تحقیق سے پتہ چلا کہ عارف حسین کو سینٹرل جیل میں ماورائے قانون تفتیش کا سامنا تھا، جب انکی لاش لواحقین کے حوالے کی گئی تو اسکے جسم پر بھی تشدد کے نشان پائے گئے تھے تاہم اس حوالے سے کوئی تحقیق نہیں کی گئی۔

اسی کیس میں سہولت کاری کے الزام میں گرفتار دیگر افراد کے لواحقین کے مطابق ان افراد کو مختلف اوقات میں بلوچستان اور کراچی سے لاپتہ کئے جانے کے بعد گرفتاری ظاہر کی گئی ہے گرفتار افراد میں شامل عبدالطیف زہری کے لواحقین کے مطابق عبدالطیف کو کراچی سے لاپتہ کیا گیا تھا جب وہ وہاں ایک فیکٹری میں مزدوری کررہے تھیں-

یاد رہے سال 2018 میں چینی قونصلیٹ حملہ کیس کے ایف آئی آر کے مفرور ملزمان میں لاپتہ راشد حسین، اسلم بلوچ، حیربیار مری، سمیت دیگر افراد کو نامزد کیا گیا تھا جبکہ راشد حسین 26 دسمبر 2018، کو متحدہ عرب امارات سے جبری لاپتہ کیے گیے جہاں بعد میں پاکستانی حکام نے راشد حسین کی گرفتاری اور پاکستان منتقلی کا دعویٰ کیا تھا-

راشد حسین کی متحدہ عرب امارات سے گمشدگی و پاکستان منتقلی کے بعد سے وہ منظر عام پر نہیں لائے گئے ہیں جبکہ انکے لواحقین گزشتہ چار سالوں سے راشد حسین کی بازیابی کے لئے احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں-

سیاسی و سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ حسنین بلوچ ایک ہونہار طالب ہے اگر انہیں شفاف ٹرائل کا موقع دیا جائے تو وہ ان الزامات سے بری ہوسکتے ہیں۔