بلوچوں پر ظلم و بربریت اپنی انتہاء کو چھو رہی ہے – این ڈی پی

223

نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے ترجمان نے اپنے ایک بیان میں ریاستی سیکیورٹی اداروں کی جانب سے جبری طور پر گمشدہ کیے گئے لاپتہ افراد کے مارنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے اندر سیکیورٹی ادارے اپنی ایک الگ ریاست بنا چکے ہیں، ان سیکیورٹی اداروں کے ہاں نہ پاکستان کی عدلیہ اور نہ ہی انسانی حقوق کوئی اہمیت رکھتی ہے، بلکہ وہ جب چاہے عدالت عالیہ سے لے کر ریاست کے تمام اداروں کو جوتے کے نوک پر رکھ کر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے ہیں۔ مجال ہے کہ کوئی بھی ادارہ خاص کر عدلیہ اس حوالے نہ کوئی نوٹس لے سکتی ہے اور ہی ان مست گھوڑوں کو طلب کرتی ہے۔

ترجمان نے مزید کہا کہ بلوچستان میں آتش و آہن کی بارش کئی نسلوں سے جاری ہے، اس سرزمین کے باسی گزشتہ کئی نسلوں سے اس آگ اور خون کے مناظر دیکھتے آ رہے ہیں، اور یہ آگ اور خون کی کھیل اتنا کھیلا جا چکا ہے کہ اس ریاست کے چلانے والوں کے منہ پر بھی خون لگا ہے، اب یہ بلوچ کے خون کا اتنا پیاسا ہوچکے ہیں کہ ہر دن آئے روز بلوچستان کے کسی بھی کونے میں کسی ناحق بلوچ کا خون بہایا جاتا، یہ اتنے خون خوار ہوچکے ہیں کہ اب اپنے قید خانوں سے بلوچ نوجوانوں کے ہاتھ اور پاؤں باندھ کر انہیں قتل کرتے ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز نے حالیہ زیارت واقعے کو جواز بنا کر 9 سے زائد جبری طور پر لاپتہ کیے گئے بلوچ نوجوانوں کو بے دردی کے ساتھ گولیوں سے چھلنی کرکے ان کی لاشیں پھینک دی ہے، اب تک ان میں سے پانچ کی شناخت شہزاد بلوچ،شمس ساتکزئی، مختیار بلوچ، انجینئر ظہیر بلوچ اور سالم بلوچ کے نام سے ہوئی ہے، یہ سب ریکارڈ پر موجود ہیں کہ ان تمام لوگوں کو انہوں نے خود جبری طور لاپتہ کیے گئے تھے، ان کی جبری گمشدگیاں ریکارڈ پر بھی موجود ہیں۔ اہل خانہ کی جانب سے ان کی جبری گمشدگی کے خلاف کیے گئے احتجاج بھی ریکارڈ پر ہیں۔

ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ ہم عالمی انسانی حقوق کے ادارے اور اقوام متحدہ سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں ہونے والے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نوٹس لے کر ریاست پاکستان کو جواب دہ کریں اور اسی طرح ہم سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس سے بھی گزارش کرتے ہیں کہ وہ اس مسئلے پر از خود نوٹس لے کر جوڈیشل انکوائری کرکے ملوث لوگوں کو سزا دے۔