بلوچستان میں تعلیمی ایمرجنسی اور سرکاری اسکولز
تحریر: گہور مینگل
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان پاکستانی فیڈیریشن میں وہ بدبخت فیڈیریٹنگ یونٹ ہے جسکو ہر مسلط کردہ حکومت میں بیدردی کیساتھ لوٹاگیا ، یہ لوٹ کھسوٹ اتنی بے رحمانہ رہی ہے کہ انسانی زندگی پر اثرانداز ہونے والے عوامل اور ضروریات زیست کو سدھارنے کے بجائے کرپٹ نظام کے بھینٹ چڑھا دیئے گئے۔
کسی ریاست میں پارلیمانی نظام کا بنیادی غرض یہی ہوتاہے کہ اس کے قانون ساز اداروں میں قانون سازی انسانی زندگی پر اثر انداز ہونے والے عوامل اور عوامی سہولت کاری کو قابل عمل بناکر رعایا کے لئے بہتر سہولتیں مہیا کی جائیں۔
تعلیم کسی بھی معاشرے میں تبدیلی اور ترقی کی پہلی سیڑھی تصور کیجاتی ہے، یورپ اور دیگرترقی یافتہ ممالک کی ترقی ،معاشی خوشحالی اور انسانی زندگی پر اثر انداز ہونے والے تبدیلی کی وجہ جدید تعلیم اور بہتر نظام تعلیم ہے۔
بلوچستان میں تعلیمی ایمرجنسی کے نام پر ہر سال اربوں روپے پانی کی طرح بہاۓ جاتے ہیں لیکن تعلیم اور نظام تعلیم قابل رحم ہے۔
5ھزار 3 سو 64سکولوں میں صرف ایک استادطالب علموں کو تعلیم کے زیورسے آراستہ کرتا ہے۔
7ھزار 9سو 11 اسکولوں میں واش رومز سرے سے وجودہی نہیں رکھتے، بیشتر تعلیمی اداروں میں سہولیات کا شدید فقدان برقرار پینے کا صاف پانی ،واشرومز رومز،گیس،بجلی،بلڈنگ،چادروچاردیواری،ٹرانسپورٹ جیسے امور پرتا حال توجہ نہیں دی گئی۔
بلوچستان اکیسویں صدی میں بھی تعلیمی ایمرجنسی کاشکار ھے ہردور حکومت میں حکمرانوں نے تعلیمی ایمرجنسی کےدعوے ضرور کۓ مگر سرکاری اسکولز کی تقدیر نہ بدل سکے.
اعداد و شمار کےمطابق بلوچستان میں ٹوٹل 13ہزار چھ سو75 اسکول موجود ہیں، جن میں سے 11 ہزار 7سو 47 سکولوں کی بلڈنگ موجود ہیں جبکہ 16 سو 25 اسکول کاغذوں کی حد تک موجود ہیں۔
5ہزار 3 سو 64 اسکولوں میں صرف ایک معلم طالب علموں کو تعلیم دےرہی ہے۔
7 ہزار 9سو 11سکولوں میں بیت الخلاء وجودنہیں رکھتے ۔ 10 ہزار 55سکولوں میں پانی تک میسر نہیں ہے بلکہ پانی ایک نایاب شے کےطورپر تصورکیجاتی ہے۔
5ہزار 8سو چالیس اسکول چادرو چار دیواری سے محروم ہیں۔ 8ہزار 9 سو 27 اسکولوں میں سے صرف 342 اسکولوں میں گیس کی سہولت موجود ہے۔
دیہی علاقے اسکول نامی بلاسے محروم ہیں ہی صوبائی دارلحکومت کوئٹہ ميں مجموعی طورپر 1لاکھ 16ہزار طلباءوطالبات کیلۓ 6سو 37 اسکول ہیں جن میں سے 146 سکول عمارت سے محروم ہیں ۔
ایوانوں کے نرم کرسیوں پر بیٹھے حکمران شاہی دعویٰ کرتے ھیں کہ تعلیمی صورتحال بہترہورہی ہےمگر اعدادو شمار اور حقیقت اسکے برعکس نظر آتے ہیں۔
بلوچستان کےدوردراز علاقے تو چھوڑیں صوبائی دارلحکومت میں ایسے اسکولز نظرآئینگے جہاں بنیادی سہولیات میسر ہی نھیں ہیں حکومت ہر سال کروڑوں روپے کا بجٹ مختص کرتی ھے مگر بجٹ کرپشن کی نظرہوجاتاھے جسکی ایک وجہ غلط حکمت عملی اور گھوسٹ اساتذہ کی کثیرتعداد ھے جوگھروں میں بیٹھے تنخواہیں وصول کرتے ہیں۔
جس بدبخت صوبے میں جہاں تعلیمی حالت اور ترقی کی حد رفتار یہ ہواور پھر وہاں موجودہ صوبائی وزیر تعلیم جیسے نان کوالیفائیڈ مسلطی افراد محکمے میں بطور وزیر فرائض سرانجام دیتے ہوں پھر ایسے صوبے میں تعلیمی ترقی اور مستقبل کے معماروں کی زندگی کو روشن مستقبل قراردینا احمقوں والی بات ہوگی.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں