بلوچستان میں بدمست گھوڑوں کی ٹاپیں
تحریر: گہور مینگل
دی بلوچستان پوسٹ
انسانی روش ہیکہ جب بلا مشقت اسے بے پناہ وسائل اور بے سمت سفر کرنے کیلئے سہولتیں فراہم کی جائیں،تو ایسے افراد کیلئے انسانیت، احساس،روایات اور تہذیب جیسی چیزیں معدوم لگنے لگتی ہیں وہ صرف اپنی ڈائرکٹڈ منزل کی طرف سفر کو جاری رکھنے کیلئے اخلاقیات , معاشرتی رویوں اور ویلیوز کی پرواہ کئے بغیر دوڑتے چلے جاتے ہیں، جس سے سماج میں ایسے زرخرید گماشتوں کی مجموعی رویئے سےاندھی وحشت اور دہشت نماتاثر پھیلتاہے جو قطعاً عام آبادی کے حق میں حوصلہ افزا تصور نہیں کیا جاسکتا۔
جس طرح کولمبس نے کئی سو سال پہلے غالباً 1492 کو اسپین بادشاہ کی مالی مدد سے امریکی جزیرے کا رخ کیا جہاں انھوں نے اصلی وطنی باشندوں کیلئے جبر اور بربریت کے نئے باب کھول دئے اور اپنی وحشت دکھاتے ہوئے وہاں کے افراد کے مال و متاع کی لوٹ ماری ،اغواء کاری اور جبری طور پر انکو اپنے تابع رکھنا شامل تھا اس سے جو اصل مقامی لوگ تھے انہیں جبر اور ظلم کا نشانہ بناکر نیست کیا گیا۔آج بھی دنیا میں ان ریڈ انڈینز کی مثال عبرت کے نشان کے طورپر دی جاتی ہے جس سے مراد انکی خارجی سطح پر قومیت کو اقلیت میں تبدیل کرنا اپنی اندھی وحشت کو قائم کرنے کے لئے تھی اور وہ محض ظلم سہہ گئے مخالفت یا مزاحمت نہیں کی نتیجتاً دنیا میں ابدیت کی مثال بن گئے۔
پاکستانی کالونیکل نظام میں بلوچستان کی پوزیشن کچھ مختلف نہیں ہے یہاں ریاستی زیر سرپرستی میں سماج کے اوباش افراد کو اکٹھا کرکے بے تحاشا دولت اور اسلحہ دیکر مسلحہ دستے تیارکئے گئے ہیں، جنہیں عام فہم میں ڈیتھ اسکواڈز کہا جاتاہے ان بندوق بردار افراد کا کام ہی یہی ہے کہ وہ اسلحہ کی نمائش کرکے سماج میں خوف اور دہشت قائم کرکے جبر کو تقویت دیں اوراس آڑ میں مقدس روایات اور خواتین کی عصمت دری کرتے پھریں۔
ریاستی حمایت یافتہ مسلحہ جتھوں کو تمام سماجی برائیوں کی چھوٹ دی گئی ہے آئے روز بے گناہ شہریوں کی اغواء کاری، قتل و غارت،چوری ڈکیتی ،لاقانونیت اور منشیات کی لعنت کو دوام دینا ہے شامل ہے۔
کالونیکل طرز نظام میں مظلوموں اور کمزوروں کو انکی اپنی ہی سرزمین پر غیر شمار کرکے طاقت کی بنیاد پر زیر کرنے کی قدر کوشش کی جاتی ہے مقامی آبادی میں زر ومراعات یافتہ لالچی اور حرس میں مبتلاء افراد کو ان پر مسلط کیا جاتاہے تاکہ معاشرے میں شدید بگاڑ اور انارکی پیدا ہو اور معاشرے کے افراد آپس میں گھتم گتھا ہوکر نوآبادکار کوقانون نافذ کرنے کےلئے جواز فراہم کرے اور پھر اندھی وحشت کی ابتداء کی جاسکے یہ کالونیل جبری منصوبے بلوچستان میں شدت اختیار کرتے چلے جارہے ہیں
گزشتہ دو دنوں سے پاکستانی میڈیا جیو نیوز پر بریکنگ نیوز دکھایا جاتا رہا کہ ڈرامہ انڈسٹری کے دوکریکٹرز سجل اور احد نے سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس پر ایک دوسرے کو ان فالو کردیا ہے۔ یہ خبر قطعاً حیرت زدہ کرنے والی نہیں تھی کیونکہ بلوچوں پر جبر وکراخت کی نئی داستانیں، آئے روز مسنگ پرسنز کے خاندانوں کے احتجاجی مظاہرے،مسخ شدہ لاشیں،فیک انکائونٹرز اور اجتماعی جبرکے واقعات رپورٹ نہیں ہوتے بلکہ ریاستی کنٹرولڈ سسٹم میں دبائے جاتے ہیں تاکہ جابر کی شرارتوں کو باقی صوبے کے لوگوں سے چھپایاجاسکےتو یہ خبربھی ہمارے لئے باعث تعجب نہ تھا۔
نوآبادیاتی نظام میں ریاست کی مشینری محض طاقتور کی خواہش،منشاء اور اسکی تکمیل حرف آخرہوتی ہے جہاں قانون،قواعد اور ضابطے، ادارے معنی نہیں رکھتے، بلوچستان براہ راست کالونیکل جبرکی زد میں ہے اور یہاں صرف طاقتور طبقے کی نمائندگی اور اجتماعی جبر کی کارستانیاں دیکھنے کو ملتی ہیں اور کالونیکل نظام محض طاقت کےبے رحمانہ ڈگر پر وسعت پسندانہ عزائم کیساتھ قائم ہے بلکہ شدت کیساتھ جاری وساری ہے۔
سال پہلے ڈنک میں ڈیتھ اسکواڈ کے کارندے گھر میں گھس کر لمہ ملک ناز اور اسکی ننھی نونہال پھول برمش کو اندھی وحشت کا نشانہ بناکر شہید کرتے ہیں۔
مکران کی سول سوسائٹی نسبتاً دوسرے بلوچ ریجن سے زیادہ باشعور اور مزاحمتی ریجن ہے وہاں برمش تحریک اٹھی،حیات بلوچ کیلئے لوگ سڑگوں پر نکل آئے،تمپ میں دو بچوں کی شہادت پر عوام نے جبر وبربریت کوچیلنج کیا اور پہلی مرتبہ ریاستی سرپرستی میں پنپنے والے بندوق بردار افراد کو کھلم کھلاللکاراگیا۔
لیکن مکران کے علاؤہ دیگر بلوچ ریجنز اجتماعی حوالے سے لاشعور اور جبر کے خلاف منظم تحریک چلانے میں یکسر ناکام رہے ہیں بلکہ لاشعوری کی انتہائی درجے پر فائز محض تماشائی کا کردار کررہے ہیں، یہ غیر سنجیدگی،لاعلمی ,اجتماعی خوابی بزگ ومظلوم بلوچ کے کیلئے ایک المیہ اور جبر کی نئی لہرکو گلے لگانے کے مترادف ہے۔
سراوان اور جھلوان قومی تحریک میں قبائلی نظام کی بناوٹی اسٹرکچر کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ٹرائیبلزم اورقبائلی نقشہ بندیوں نے ریاستی جبر کو تقویت دینے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔
پولیٹکل انجینئرنگ میں سامراجی ایجنٹ نام نہاد سرکاری سردار،میر ومعتبر ٹکڑی سسٹم نے براہ راست عام بلوچ کو ریاستی پولیٹیکل ایجنٹ بناکر رکھ دیا ہے یہ اپنے طرز میں استحصالی نظام کے مضبوط ترین قلعے ہیں اور عام بلوچ کئی محازوں پرریاستی اور سرداری نظام کے ہتھے چڑھاگیا ہے۔
بلوچستان کے تمام سیاسی جماعتیں بلوچ ایشوزاور قومی تحریک میں مصلحت پسندی کا شکار ہیں اور محض پاور پالیٹکس تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ان تمام حالات میں بلوچوں کو یکمشت ہوکر جدوجہد کرنی ہوگی قبائلیت پسندی اور مفادات کے پجاری پارلیمانی جماعتوں کو للکارناہوگا انکے خلاف از سرنو تنظیم سازی کرنی ہوگی۔
دو دن پہلے دالبندین چھتر سے غلام محمد اپنی فیملی کے ہمراہ انصاف مانگنے کوئٹہ پریس کلب پہنچے۔ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انکا کہنا تھاکہ ایک بااثر شخص ( ریاستی بندوق بردار ) اپنے چار مسلحہ ساتھیوں کے ہمراہ شراب نوشی کی حالت میں گھر کی دیوار پھلانگتے ہیں اورسات سالہ بچی کو اسلحہ کے زور پر اغواء کرکے زبردستی شادی کیلئے دھمکی دیتاہے اگر مجھے انصاف نہیں ملا تو میں خاندان سمیت چوک پر لٹک کر خود سوزی کرونگا۔
یہ بلوچ مقدس روایات اور اجتماعی نفسیات کاقتل ہے بلوچ سماج میں بڑھتے خواتین کی عصمت دری اور ظلم و زوراکی کی واقعات کو کچلنا ہوگا انکے خلاف مکمل تحریک و آگہی مہم چلانی ہوگی اورریاستی بندوق بردار اور بدمست گھوڑوں کی ٹاپوں میں خلل ڈالنا ہوگا، انہیں ایکسپوز اور ریخت کرکے مکمل کریک ڈائون اور فرنٹ فٹ پر آکر مزاحمت کرنا ہوگاتاکہ انکو لگام ڈالاجاسکے وگرنہ یہ ناسور کی طرح بلوچ مہذب اور پاک معاشرے میں وائرس کی طرح پھیل جائیگا جوکئی ملک ناز اور برمش اپنی لپیٹ میں لے گا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں