سیاست میں کوئی بھی ناگزیر نہیں ہے، بورس جانسن کا بیان
برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن نے عہدے سے مستعفیٰ ہونے کا اعلان کردیا ہے۔
برطانوی ذرائع ابلاغ سے جاری خبروں کے مطابق کنزرویٹو پارٹی کے سربراہ اور برطانیہ کے وزیراعظم نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بورس جانسن کی پارٹی کے 50 اراکین پہلے ہی اپنے استعفے جمع کراچکے ہیں۔
واضح رہے کہ 90 برس بعد پہلی بار برطانوی وزرا نے ایک ساتھ استعفے دیئے ہیں۔
قبل ازیں برطانیہ کے وزیرِ اعظم بورس جانسن نے سنگین ہوتے سیاسی بحران اور استعفے کے بڑھتے مطالبوں کے درمیان لیولنگ اپ سیکریٹری مائیکل گوو کو کابینہ میں عہدے سے برطرف کیا تھا۔
کئی ماہ کے سیاسی بھونچال کے بعد رواں ہفتے منگل کو سیکریٹری صحت اور چانسلر 10 منٹ کے اندر اندر وزیرِاعظم کی جانب سے کنزرویٹو رکنِ پارلیمان کے خلاف جنسی بدسلوکی کے الزامات پر ردِ عمل سے مایوس ہو کر مستعفیٰ ہو گئے تھے۔
اس کے ساتھ استعفوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا اور صرف بدھ کے روز کم سے کم 44 وزرا اور مشیروں کی جانب سے استعفے دیے جا چکے ہیں۔
منگل کی شام سینیر وزرا کے ایک گروپ نے ڈاؤننگ اسٹریٹ جا کر وزیرِاعظم کو مستعفی ہونے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی۔
اس سے قبل یہ اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ بورس جانسن نے مستعفی ہونے کے امکانات کو رد کردیا ہے۔ پی ایم ہاؤس کی جانب سے بھی یہ تاثر دیا گیا تھا کہ بورس جانسن ڈٹے ہوئے ہیں اور ان کے مستعفی ہونے کا کوئی ارادہ نہیں ہے کیونکہ انہیں گزشتہ الیکشن میں ووٹرز نے ’بھاری مینڈیٹ دیا تھا۔
کابینہ میں ان کے اتحدای جیکب ریس موگ نے بورس جانسن کے خلاف مہم کو ایک ‘طوفان’ سے تشبیہ دی تھی۔
جنسی بدسلوکی کا واقعہ
گزشتہ ماہ جولائی 2022 کو برطانوی اخبار دی سن میں صرف چار روز قبل بطور پولیٹیکل رپورٹر نوکری کا آغاز کرنے والی 24 سالہ نوا ہافمین نے خبر بریک کی تھی کہ کنزرویٹو رکنِ پارلیمان کرس پنچر نے بطور پارٹی وہپ اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا کیونکہ انھوں نے کارلٹن پرائیویٹ ممبرز کلب میں شام کے وقت ‘بہت زیادہ’ شراب پی لی تھی۔
کرس پنچر نے وزیرِ اعظم کو اپنے استعفے میں بتایا کہ انھوں نے ‘حد سے زیادہ شراب پی لی تھی’ اور ’خود کو لوگوں کے سامنے شرمندہ کروایا۔ تاہم یہ معاملہ اس سے کہیں زیادہ سنگین تھا۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے پرائیویٹ ممبرز کلب میں دو افراد کو ناشائستہ انداز میں چھوا۔
اس کے بعد دو پیش رفت ہوئیں۔ ایک یہ کہ حکومت نے میڈیا کو بریف کرتے ہوئے بتایا کہ پنچر نے اعتراف کر لیا ہے کہ ان کا رویہ غیر مناسب تھا اس لیے وہ بطور رکنِ پارلیمان اپنا کام جاری رکھیں گے اور ان کے خلاف مزید کارروائی نہیں کی جائے گی۔
تاہم اس ظاہری کارروائی کے پیچھے کنزرویٹو رکنِ پارلیمان شدید غصے میں تھے۔
اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ پنچر کے بارے میں ایسے ہی الزامات ماضی میں بھی لگائے گئے تھے۔ لیکن بورس جانسن کی جانب سے انہیں جماعت کا ڈپٹی چیف وہپ بنا دیا گیا تھا۔ اس عہدے پر موجود افراد کو اراکین پارلیمان کے ڈسپلن پر نظر رکھنے کے علاوہ ان کو ذاتی مسائل پر مشورے فراہم کرتے ہیں۔