بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے جمہوری آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں بلوچستان کی تحصیل بسیمہ ضلع خاران کے رہائشی بلوچ سیاسی پناہ گزین ثاقب کریم کی نعش برآمدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے آذربائیجان کی حکومت سے درخواست کی ہے کہ ان کی موت کی تحقیق میں قتل کے خدشے پر بھی تفشیش کرے کیونکہ بلوچستان میں ان کے دو بھائیوں کو پاکستانی فوج نے جبری گمشدگی کے بعد زیرحراست قتل کیا تھا جس کے بعد ثاقب کریم نے جبری جلاوطنی اختیار کی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ثاقب کریم کی موت جن حالات میں ہوئی وہ ابھی تک غیر واضح ہیں جو پارٹی اور ان کے اہل خانہ کے لیے باعث تشویش ہے۔
انھوں نے کہا یہ نہایت ہی باعث تشویش ہے کہ بلوچستان میں غیر محفوظ ہونے کے بعد جب بلوچوں نے بیرونی ممالک میں پناہ لی تو وہاں بھی انھیں اسی قسم کی صورتحال کا سامنا ہے ثاقب کریم کا واقعہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس سے قبل بھی سیاسی طور پر پناہ گزین بلوچ نیشنل موومنٹ کی رہنماء بانک کریمہ بلوچ کی نعش کینیڈا میں دریا کے کنارے برآمد ہوئی اور بلوچ صحافی اور دانشور ساجد حسین کی نعش سویڈن سے برآمد ہوئی۔ماہرین اور ڈاکٹروں کے مطابق پانی میں ڈبو کر ہلاک کرنے سے قتل کے ثبوت مٹ جاتے ہیں اس لیے متعلقہ پولیس یہ بھی دیکھے کہ کیا انھیں قتل کرنے کی کوئی وجہ نہیں ، کیا ایک تسلسل کے ساتھ بلوچ مہاجرین کا پانی میں ڈوب کر مرنا محض اتفاق ہے ہم اسے اتفاق نہیں سمجھتے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ ثاقب کریم کے دو بھائی شہید طارق کریم اور شہید عاصم کریم کو پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے جبری گمشدگی کا نشانہ بنا کر ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینک دیں جبکہ ان کے خاندان کے دیگر افراد کو بھی نشانہ بنایا گیا خود کو ریاست پاکستان کے ظلم و جبر سے محفوظ رکھنے کے لیے ثاقب کریم نے ایک خلیجی ملک میں پناہ لی اور بعد میں آذربائیجان منتقل ہوگئے تاکہ وہ وہاں اقوام متحدہ کے پناہ گزین کے ادارے یو این ایچ سی آر میں رجسٹر ہوسکے لیکن وہاں سے ان کی لاش برآمد ہوئی۔
بلوچ نیشنل مومنٹ کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے بھائیوں کے ساتھ جو ہوا اس کے بعد یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ یہ حادثاتی موت تھی اس لیے ہم آذربائیجان کی حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس کی تحقیق میں قتل کے خدشے پر غور کرئے کیونکہ پاکستانی کی ریاستی انٹلی جنس ادارے اس سے قبل بھی سیاسی مخالفین کو بیرون ممالک نشانہ بناچکے ہیں۔
ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ بلوچستان میں پاکستانی فوج ایک تسلسل کے ساتھ بلوچ سیاسی کارکنان ، آزادی پسند اور اجتماعی سزا کے طور پر ان کے اہل خانہ کو جبری گمشدہ کر رہی ہے اور انھیں ماورائے عدالت قتل کیا جا رہا ہے جس کے باعث متاثرہ افراد کی ایک کثیرتعداد ہمسایہ ممالک ایران اور افغانستان کے علاوہ دیگر ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان حالات میں دیار غیر میں پناہ گزین بلوچ سیاسی کارکنان کی نعشوں کی برآمدگی باعث تشویش اور باعث مذمت ہے عالمی برادری کو چاہیے کہ شہید ساجد حسین، شہید بانک کریمہ اور شہید ثاقب کریم کے واقعات کی تفتیش کرے اور اصل محرکات سامنے لائے۔ ان واقعات میں ملوث قوتوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے تاکہ دیار غیر میں بلوچ سیاسی پناہ گزینوں کی زندگی کو لاحق خطرات سے محفوظ رکھا جاسکے۔