بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا جبری گمشدگیوں اور لاپتہ افراد کی عدم بازیابی کے خلاف احتجاجی کیمپ کو 4679 دن مکمل ہوگئے-
احتجاجی کیمپ میں تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کے ساتھ لاپتہ راشد حسین کی والدہ اور دیگر لواحقین شریک تھے-
اس موقع پر لواحقین سے بی ایس او، بی ایس او پجار اور دیگر سیاسی اور سماجی کارکنان نے اظہار یکجہتی کی –
تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں جبر کا سلسلہ کبھی تھما نہیں آج بھی مختلف علاقوں میں فوج نے اپنے مقامی ڈیتھ اسکواڈ کے ذریعے فوجی بربریت اور جبری گمشدگیوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے-
انہوں نے کہا کہ بلوچستان سمیت کراچی میں گزشتہ ایک دو مہینوں سے بلوچوں کی جبری گمشدگیوں میں کافی تیزی آئی ہے-
انہوں نے کہا کہ پاکستانی ریاست نے عالمی انسانی حقوق کے قوانین کی دھجیاں اڑائی ہوئی ہیں، لیکن انکو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، انسانی حقوق کے تنظیموں کے دعویٰ اور بیانات لفاظی رہ گئے ہیں، بلوچستان انسانی حقوق کے حوالے سے بلیک ھول بنتا جا رہا ہے، نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا بلیک آؤٹ ہے، سب نے چشم پوشی روا رکھا ہے –
انسانی حقوق کے اداروں کی جانب سے کئی بار نوٹس لینے اور اعلامیے جاری ہونے کے باوجود کوئی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں نا کوئی کمی آ رہا ہے نا ان پہ عملدرآمد کیا جا رہا ہے-
انکا کہنا تھا کہ ہم تمام جبری لاپتہ افراد کے لواحقین سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے از خود سامنے آئیں اور احتجاج ریکارڈ کرائیں –