کوئٹہ: جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج جاری

163

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ کو 4670 دن مکمل ہوگئے- ایچ آواز سی پی کے صوبائی حچیئرمین بیب طاہر ساتھیوں کے ہمراہ کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی-

کیمپ آئے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق سنگین پامالیاں لامحدود ہوتی جارہی ہیں اس خطہ پر نہ صرف ہر طرح کی سیاسی سماجی علمی سرگرمیوں پر مکمل قدغن عائد ہے بلکہ وطن کے باسیوں کے لئے وسیع و عریض سرزمین تنک سے تنک تر کر کردی گئی ہے جہاں عدم تحفظ کے احساس کو لیکر ہر کوئی بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہے جان مال عزت آبرو کے ساتھ کھلا اڑ تو روز کا معمول بن چکا ہے-

ماما قدیر بلوچ نے کہا تمام حالات کو مدنظر رکھ کر دنیا کی بے حسی اور مجرمانہ غفلت کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا قطعی طور پر مشکل نہیں کہ مستقبل قریب میں پاکستان ایران کی ریاستی وحدت بربریت اور ظلم ناانصافی کی نہ چھٹنے والے یہ گہرے سائے بلا شک ایک بہت بڑی انسانی بحران کو جنم دینے کا موجب بن سکتے ہیں-

ماماقدیر نے کہا کہ اگر چہ پاکستان کی کھلی جارحیت کی تاریخ بہت پرانی ہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی نوعیت اور شدت بھیانک صورت اِاختیار کرتی جارہی ہے انسان انسانیت کو خاطر میں نہ لانے ہوتے ہوئے نہتے بلوچ نوجوانوں سیاسی ورکروں کو ایک دو مہینے میں سینکڑوں کی تعداد میں بلوچستان و کراچی سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے اور کیا جارہا ہے اور عام آبادیوں کو جس بے رحمی سے کچلا جارہا ہے اسے دیکھ کر روح انسانی کانپ اٹھتا ہے-

ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا ہے کہ فوج خفیہ اداروں کے منظور نظر حکومت ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر مذاکرات کا ڈھونڈورا پیٹنے کے ساتھ بلوچ عوام اور سیاسی ورکروں رہنماوں کے خلاف جس چابک دستی سے متحرک ہیں اور انہیں راستے سے ہٹانے میں مصروف عمل ہیں اس کے علاوہ کتاب و قلم اور تعلیم دشمنی کی جو تاریخ رقم کر رہے ہیں وہ قومی انتقام احتساب کے جذبے سے بھر پور بلوچ قوم کے ذہنوں پر نا صرف انمنٹ نقوش چھوڑرئے ہیں بلکہ تاریخ انسانی کے صفحوں پر بھی بد نما داغ ثابت ہورئے ہیں ۔