کملی کر کے چھڈ گئے او، پئی کھک گلیاں تاں رولاں ۔ محمد خان داؤد

320

کملی کر کے چھڈ گئے او، پئی کھک گلیاں تاں رولاں

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

اس درد کو میں لطیف کے ان لفظوں سے بھی شروع کرسکتا ہوں
”ھنڙي سڄڻ ساريا“
”آ! دل نے اپنے یاد کیے“
پر میں لطیف کی بات کو رہنے دیتا ہوں، میں اپنی بات فرید کے الفاظ سے شروع کرتا ہوں کہ
”کملی کر کے چھڈ گئے او،پئی کھک گلیاں تاں رولاں!“
اگر وہ آج اکیلی نہ ہوتی اور اس کے ہاتھ میں بابا کا ہاتھ ہوتا تو وہ آج ”فادر ڈے“پر سوشل میڈیا پر ایسا اسٹیٹس اپ لوڈ کرتی کہ
”بابا! تم محبت کی ندی ہو اور میں پیار کی مچھلی
بابا! یہ تصور کتنا مشکل ہے کہ اک پیار کی مچھلی محبت کی ندی کے بغیر رہ پائے
بابا! مجھے تم سے محبت ہے!“
پر ایسا کچھ نہیں،محبت کی ندی کہاں کھو گئی؟اور پیار کی مچھلی اکیلی رہ گئی
محبت کی ندی!کس طرف بہہ گئی،پیار کی مچھلی تڑپتی رہ گئی
محبت کی ندی! نے کس طرف رُخ پھیر لیا،پیار کی مچھلی منتظر منتظر ہی رہ گئی
محبت کی ندی! کو کس نے سُکھا دیا؟پیار کی مچھلی شال کی گلیوں میں تڑپتی رہ گئی
محبت کی ندی! کو زہر آلود کس نے کر دیا،پیار کی مچھلی مر گئی
محبت کی ندی! اب کس طرف بہہ رہی ہے کچھ نہیں معلوم پر ہم یہ جانتے ہیں کہ پیار کی مچھلی مسافر بنی ہوئی ہے وہ بھی دھول آلود گلیوں میں،شال کی راہوں میں،شہر یاراں کی گھاٹیوں میں،شہر اقتدار کے ایوانو ں کے سامنے،پریس کلبوں کے دروں پر،انسانی حقوق کے اعلیٰ اداروں کے دروں پر،مسنگ پرسن کے کمیشنوں کے سامنے،وہ کہاں کہاں ہے؟وہ کہاں کہاں نہیں؟پر وہ اس ندی میں نہیں جو ندی محبت کی ندی تھی جس ندی میں وہ پیار سے تیرا کرتی تھی۔اور اپنے بابا کے گال چوما کرتی تھی،اب سب کچھ منتظر منتظر سا ہے! سب کچھ۔
کاش درد کو زباں ہوتی
کاش درد کو آہ ہو تی
کاش درد بولتا
کاش درد فگار ہوتا
کاش درد کی آنکھیں ہو تیں
کاش وہ آنکھیں نم ہو تیں
کاش درد کے پیر ہو تے
وہ پیر دھول آلود ہو تے
کاش درد کو مانگ ہو تی
وہ مانگ دھول آلود ہو تی
کاش درد کے بدن پر چولہ ہوتا
وہ چولہ لہو لہو ہوتا
اور کوئی اس چولے کو دیکھ کر لکھتا
”میرڑو چولو“
کاش درد کے سر پر دوپٹہ ہوتا
وہ کبھی گرتا
کبھی سنبھلتا
کبھی پرچم بن کر لہراتا
کبھی شکست خودرہ بن کر گرجاتا
اور پیروں میں اُلجھ جاتا
کاش درد کو دل ہوتا
وہ سینے میں دھڑکتا ہی رہتا
کاش درد نیند ہوتی
جو راتوں میں اور راہوں میں رُل جا تی
کاش درد،در ہوتا اور منتظر آنکھیں انہیں تکتی رہتیں اور در پو ری رات ہلتا رہتا
اور کوئی تو ہلتے در کو دیکھ کر لکھتا
”گھر تو سُتو آ بھاتیں ساں بھانکریں
اے کھڑکندڑدر!چھو بھلا سمیں نتھو؟
”گھر تو سو گیا اپنے کو بہانوں میں لیکر
اے ہلتے در!تم کیوں سوتے نہیں!“
کاش دردسفر ہوتا
خود ہی تھک کر راہ میں بیٹھ جاتا
کاش دردماں ہوتی
تو جان پاتی درد کیا ہوتا ہے
کاش درد بیٹی ہوتی
تو جان پاتی بابا سے دوری کیا ہے
پر درد تو دلاسہ بھی نہیں۔درد تو پروسہ بھی نہیں۔درد تو دعا بھی نہیں۔درد تو یقین کامل بھی نہیں۔درد تو جھوٹ بھی نہیں درد دنیا کا واحد سچ ہے جس کے دامن گیر ہو وہ بھی جانتا ہے جس سے دامن گیر نہیں ہوا وہ بھی جانتا ہے،درد دوا نہیں درد دو داروں ہے پیا جائے تو پھر بھی درد اور اگر چھوڑا جائے تو پھر بھی درد
ایسا ہی درد اس بیٹی کے دامن گیر ہوا ہے جس میں وہ سب کچھ بھول رہی ہے بس اسے یاد رہ گیا ہے وہ بابا جس کا ہاتھ اس سے ایسے چھوٹ گیا جیسے محبت کا محبت سے ہاتھ چھوٹ جائے اور محبت رو تی رہ جائے
اک محبت کا ہاتھ محبت سے چھوٹا
اور دوسری محبت رو تی رہ گئی
اک محبت کا ہاتھ چھوٹا
اور دوسری محبت درد سے بھر گئی
اک محبت کا ہاتھ چھوٹا
اور دوسری محبت مسافر بن گئی
اک محبت کا ہاتھ چھوٹا
اور دسری محبت راہوں میں رُل گئی
اک محبت کا ہاتھ چھوٹا
اور دوسری محبت آپ ہی سوالیہ (؟) نشان بن گئی
اک محبت کا ہاتھو چھوٹا
اور دوسری محبت درد کا نوحہ بن گئی
اک محبت کا ہاتھ چھوٹا
اور دوسری محبت نوحہ گر بن گئی
اور اب تک کہہ رہی ہے
”کملی کر کے چھڈ گئے او،پئی کھک گلیاں تاں رولاں!“
تو آج فادر ڈے پر سمی کیا اسٹیٹیس اپ لوڈ کرے؟
وہ کیا لکھے؟
وہ دنیا کو کیا بتائے؟
وہ محبت کا اظہار کن الفاظوں میں کرے
وہ جو پیار کی مچھلی ہے
جس کی محبت کی ندی کو سُکھا دیا گیا ہے اور وہ اب تپتی راہوں میں تڑپ رہی ہے وہ آج کے دن پر کیا لکھے
جہاں الفاظ بھی درد سے بھر جائیں
وہاں کیا تخلیق کیا جائے
جہاں کوئی آسماں سے کوئی صحیفہ بھی نہ آئے
وہاں گونگی زبانیں کیا اظہار کریں؟
اس لیے سمی آج کچھ نہ لکھے بس ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی پرانی ہاتھوں میں تھامی مٹتی تصویر کو لیکر بابا فرید کے یہ الفاظ لکھے کہ
”کملی کر کے چھڈ گئے او،پئی کھک گلیاں تا رولاں!“


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں