میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں؟ (آخری قسط) ۔ مہرجان

461

  میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں؟)آخری قسط)

تحریر: مہرجان

دی بلوچستان پوسٹ

میری نظر میں نو آبادیاتی معاشروں کے لیے فیڈریشن کی اصطلاح کو استعمال کرنا درست نہیں ہے ، یہاں تو رشتہ طاقتور اور کمزور ، آقا اور رعایا کا ہے “ بابا مری

فیڈریشن ایک سیاسی اصطلاح ہے جو معنی و مفہوم کی سطح پر بھی تغیر پذیر رہی ہے اور بطور سیاسی نظام بھی مختلف طرزوں کا حامل رہی ہے۔ بہت سی جگہوں پہ اسے (فیڈریشن کو) کنفیڈریشن کے ساتھ ملا کر بیان کیا گیا ہے اس لیے کنفیڈریشن اور فیڈریشن میں ابہام کا پہلو متواتر رہا ہے ,اس ابہام سے قطع نظر اگر اسے آسان سیاسی زبان میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ مختلف وحدتوں (اکائیوں) کا اپنی رضامندی سے اپنا اقتدار اعلیٰ کسی ایک مرکز کو دستوری شکل میں سونپ دینا فیڈریشن کہلاتا ہے جبکہ کنفیڈریشن مختلف ریاستوں کی رضامندی سے اتحاد کو کہتے ہیں۔ فیڈریشن میں مرکزیت قائم ہوتی ہے جبکہ کنفیڈریشن میں گریز مرکزیت(عدم مرکزیت) ہوتی ہے۔

کنفیڈریشن کا بنیادی تصور صورت خان مری کی تحقیق کے مطابق ریڈ انڈین قبائل سے لیا گیا تصور ہے جس کے لیے وہ “گرائمر آف پالیٹکس” کتاب کا حوالہ دیتے ہیں۔ امریکہ میں پہلے پہل تیرہ ریاستوں کا کنفیڈریشن بنا ،جو بعد میں فیڈریشن (جغرافیائی / علاقائی ) کی صورت میں سامنے آیا ، منطقی حوالے سے بھی گر دیکھا جاۓ تو کنفیڈریشن ہی بنیاد بنتی ہے فیڈریشن کے لیے ، جہاں مختلف ریاستیں اپنی حق حکمرانی کے محدود اختیارات مرکز کو تفویض کرتی ہیں اگر معاملات برابری کی بنیاد پہ چلتے رہے تو فیڈریشن کی صورت سامنے آسکتی ہے۔ فیڈریشن میں مرکز مختلف اقوام کو دستوری شکل میں اختیارات تفویض کرتا ہیں۔ جو معاہدہ عمرانی کی ایک واضح صورت ہے ،فیڈریشن اسی صورت میں کامیاب ہوسکتی ہے، جہاں کثیر اقوام کی شناخت ، برابری کی صورت میں آذادی راۓ سے قائم ہو۔

ریاست پاکستان کی سیاسی بنیاد پہلے پہل کنفیڈریشن کے حوالے سے رکھی گئی تھی جس کا تذکرہ باقاعدہ ،قرارداد لاہور سے لے کر کیبنٹ مشن میں موجود تھا ، لیکن قیام پاکستان کے فوراََ بعد کنفیڈریشن تو اپنی جگہ ، جمہوری حکومتوں کا خاتمہ کرکے ریاستی جبری الحاقات کی بنیاد پہ ایک دفعہ پھر نوآبادیاتی دور کا آغاز ہوا ، جہاں اب تعلق برابری کی بنیاد پہ نہیں بلکہ آقا اور غلام کی بنیاد پہ استوار ہونا شروع ہوا ۔ ایسی فضاء میں جمہوریت خود مستبد ہاتھوں میں چلی گئ اور اپنا جوہر یعنی “عوامیت” کھو گئ۔

بلوچ قوم اور ریاست قلات کیلیے مسلم لیگ یا اس جیسی کنفیڈریشن کبھی بھی درد سر نہیں تھی ، حتٰی کہ “ تحریک پاکستان کی حمایت پر میر غوث بخش بزنجو کمیونسٹ پارٹی سے علیحدہ ہوۓ “ لیکن جبری الحاق کے نتیجے میں بلوچ پالیٹکس بھی اسی نوآبادی سیاست کا حصہ بنی ، نیب جو اپنی قوم پرستانہ مزاج کی وجہ سے ون یونٹ جیسے ڈارک فورسز کے سامنے کھڑی رہی گرچہ اس دوران مزاحمت اپنی راہ خود بناتی رہی جو مختلف مراحل میں جاری و ساری ہے ، لیکن بعض بلوچ راہنماء بلوچ قومی اسپرٹ کو معدوم ہوتے دیکھ کر نو آبادیاتی پارلیمنٹس کا رخ اختیار کرگئے جن میں اہم بلوچ اکابرین ، میر غوث بخش بزنجو ، گل خان نصیر اور سردار عطاءاللہ مینگل شامل تھے البتہ بابامری ستر کی دہائی سے فیڈریشن کی سیاست کو وقت کا زیاں کہتے رہے اور ایک مستقل الگ راہ اپنائی ، جس راہ پہ وہ کبھی پشیمان یا افسردہ نہیں ہوۓ ، بس خاموش آہستہ آہستہ چلتے رہے ، بابا مری کی نہ صرف خاموشی ہدف تنقید بنی بلکہ ان کی کچھوے کی چال بھی بہت سے دوستوں کو نہیں بھایا ، لیکن ان دوستوں کو کیا خبر کہ راستوں کی پہچان خرگوش سے زیادہ کچھوے کو ہوتا ہے ، جبکہ دوسرے بلوچ راہنماءِ جیل و ٹارچر سیلوں کی صعوبتیں اور کوڑوں کی سزائیں بھگت کر بھی وفادار بننے کی سعی کرتے رہے کہ کسی طرح بڑا سیاسی کردار نبھا سکیں، لیکن “بلوچ” ہونے کی وجہ سے نو آبادیاتی پارلیمنٹس میں نہ صرف بڑا سیاسی کردار ادا کرنے سے قاصر رہے بلکہ نوآبادیاتی حکمرانوں کی برابری بھی نہ کرسکیں ۔

جہاں بابا مری نے فیڈریشن کی سیاست اور جمہوری استبداد کو وقت کا زیاں سمجھ کر اسے مسترد کیا وہاں میر غوث بخش بزنجو دستور کی تدوین کردہ کمیٹی میں شامل ہوکر نوآبادیاتی معاشروں میں “فیڈریشن” کو صوبائی حقوق بشمول صوبائی خودمختاری کے لیے کمر بستہ رہے ، صوبائی خودمختاری سے بڑھ کر وہ قومی حق و اختیار کی بھی بات کرتے رہے ، وہ اپنی تئیں یہی سمجھتے رہے کہ “فیڈریشن (وفاق )کی ضرورت ہی وہاں پیش آتی ہے جہاں کثیر الاقوامی ریاست ہو” قومی خودمختاری دینا ہی فیڈریشن کا اصل مقصد ہوتا ہے ، وہ وفاقی طرز جمہوریت پہ یقین رکھتے تھے،وہ پاکستان کو ایک جمہوری قومی ریاست ماننے سے منکر تھے بلکہ قوموں کی ریاست کے لیے تگ دو کررہے تھے یعنی نیشن اسٹیٹ کی بجاۓ اسے اسٹیٹ نیشن بنانے کی تگ و دو میں مصروف رہے ، وہ وسائل کی منصفانہ تقسیم میں بلوچ قوم کی خوشحالی دیکھنا چاہ رہے تھے ،لیکن یہ سب کچھ نوآبادیاتی پارلیمنٹس کی سیاست میں ناممکنات میں شامل تھا، کیونکہ نوآبادیاتی سوچ وسائل سے بڑھ کر محکوم کی “شناخت” کو ہدف تیر بناتی ہے۔اکیڈمک دنیا میں وسائل کی “دوبارہ تقسیم کاری اور شناخت “ پہ بہت کچھ لکھا جارہا ہے کہ کسی بھی محکوم کی شناخت پہ حملہ آوار ہوکر وسائل کی فراہمی سے کیا انہیں مطمئن کیا جاسکتا ہے ؟یہ اکیڈمک کی دنیا میں ایک بنیادی سوال ابھر رہا ہے، جبکہ یہاں شناخت تو تجرید سے زیادہ کنکریٹ شکل میں موجود ہے یعنی ساحل وسائل سے آپ کی شناخت کو الگ نہیں کیا جاسکتا،اس لیے یہاں اس اکیڈمک سوال کو شناخت و وساہل کو کنکریٹ کے حوالے سے دیکھنا ہوگا ، جہاں نوآبادیاتی ریاست آپ کی شناخت کو روندتے ہوۓ آپ کے اپنے ساحل وسائل سے آپ کو مونگ پھلی کا دانہ دے رہا ہے ، اس خیرات سے خوشحالی کی توقع رکھنا یا نوآبادیاتی حکمرانوں سے شناخت و قومیتی خودمختاری کی توقع رکھنا عبث ہے کیونکہ محکوم کو سب پہلے اُنکی روایات ، تاریخ اور زمین سے بے دخل کردیا جاتا ہے ، اک موقع پہ غوث بخش بزنجو نے انہی روایات ، تاریخ اور شناخت کا دفاع کرتے ہوۓ گولڈ اینڈ گن پالیسی کو ہدف تنقید بنایا،لیکن بدقسمتی سے وہ نوآبادیاتی معاشرہ میں فیڈریشن کی “غیر جاندار روح” میں قومیتوں کا کیس لڑ رہے تھے ، جو کہ ہر لحاظ سے غیرمنطقی تھا اس کے غیرمنطقیت کی سب بڑی وجہ ریاستی جبر ، طاقت کا توازن ، اور سب سے بڑھ کر آبادی کا تناسب تھا ،اور سب سے بڑھ کر ایسا کوئی مؤثر دانشور سارتر کی صورت میں بھی نہیں تھا ، جو پنجاب کا ہوکر بھی مختلف قومیتوں کے قومی سوال کو بطور مقدمہ پنجاب کے سامنے رکھ کر پنجاب سے لڑتا۔ شاعری کی حد تک تو ٹھیک ہے ، کہ گل خان نصیر کی بلوچی زبان کی شاعری کا اردو میں ترجمہ کرنا ، اس حد تک ترقی پسندی ضرور تھی لیکن قومی سوال پہ ریاستی جبر ، طاقت کے توازن ، اور ڈیموگرافی جیسے مسائل پہ خاموشی ہی ترقی پسندی کہلاتی تھی۔ اسی طرف میر غوث بخش بزنجو اشارہ بھی کرچکے تھے جو بقول جمعہ صوفی کی درست پیشن گوئ ثابت ہوئ کہ “بھٹو کے ساتھ جنگ میں ہمارا ہی نقصان ہوگا ،پشتون جیل چلے جاہیں گے ، بلوچ پہاڑوں میں فراری کی زندگی گزارنے پہ مجبور ہوں گے ،کراچی و پنچاب کے کمیونسٹ کیفے میں بیٹھ کر چاۓ کی پیالی میں اور شب ناموں کی تقسیم سے انقلاب پربا کرتے رہیں گے” ایسی ترقی پسندی ہنوز جاری ہے ، میر غوث بخش بزنجو کا اک طرف یہ ماننا اور امن کانفرنسز میں اس بات کا اظہار کرنا کہ “سامراج کی فطرت میں جنگ جوئی موجود ہے” لیکن دوسری طرف سامراج کی اس جنگ جوئی کو فقط مذاکرات سے حل نکالنا انکی کُل سیاست کا محور رہا ، انکی نیت یا قوم دوستی پہ کسی کو شک نہیں کرنا چاہیے ،لیکن انکی سیاسی حکمت عملی، (فیڈریشن کی سیاست اور سامراج کی جنگ جوئ کے سامنے مذاکرات) پہ تاریخ میں سوالات اُٹھتے رہے ،بقول بابا مری جب تعلق رعایا اور آقا کا ہو ، یا سامنا سامراج کی فطری جنگ جوئی سے ہو پھر مذاکرات کی نوعیت کو دیکھنا پڑتا ہے۔ ایک دفعہ بابا مری سے کسی نے پوچھا کہ اکیسویں صدی ہے ٹیبل ٹاک کا زمانہ ہے آپ ابھی تک بندوق کی بات کیسے کررہے ہو ؟ بابا مری تحمل سے بات سننے کے بعد گویا ہوۓ ، کہ “ٹیبل تک پہنچنے کے لیے بھی کچھ کرنا پڑتا ہے” ، جب آقا بطور آقا آپ سے مذاکرات کرے گا تو مذاکرات مذاکرات نہیں بلکہ “ تلوار اور گردن” کا رشتہ ہوگا.

اسی طرح سردار عطاءاللہ مینگل بھی فیڈریشن کی سیاست سے مایوس ہوکر جلاوطنی کی زندگی گذار رہے تھے ،وہ آہین پر دستخط کو اپنی “نالاہقی کی انتہا سے تعبیر کرکے اپنی غلطی مان چکے تھے “ اب وہ فیڈریشن کی بجاۓ کنفیڈریشن کے لیے اک سیاسی محاذ پہ لڑ رہے تھے ، ان کے ساتھ اس محاذ پہ حفیظ پیر زادہ ، ممتاز بھٹو شامل تھے ، لیکن ریاست قلات کے پس منظر میں ہونے کی وجہ سے سردار عطاء الللہ مینگل کا موقف دوسروں(حفیظ پیر زادہ /ممتاز بھٹو) کی نسبت جاندار تھا ، دانشور بابا مری گرچہ اسے بھی تضیح اوقات کہتے رہے ان کے مطابق “پنجاب کبھی بھی اختیارات سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہوگا“ اور میر غوث بخش بزنجو اس وقت ایم آر ڈی کا حصہ تھے لیکن بقول سردار عطاءاللہ مینگل گر کچھ کنفیڈریشن کی صورت گری کی راہ نکلی تو بابا مری اور میر غوث بزنجو ساتھ دینگے ، سردار عطاءاللہ مینگل جب جیل میں تھے تو اس وقت انہیں آذادی کا خیال بھی آیا لیکن وہ اس خیال کو بروۓ کار نہیں لاسکے ، البتہ اب فیڈریشن کی بجاۓ کنفیڈریشن کے لیے سیاسی طور پہ سامنے آۓ ، اب بقول سید جعفر احمد غوث بخش بزنجو فیڈریشن ،یعنی کنفیڈریشن سے کم کی بات کررہے تھے ، بابا مری آذادی کی بات کرکے کنفیڈریشن سے بڑھ کر بات کررہے تھے جبکہ سردار عطاءاللہ مینگل ان تینوں مطالبات میں مشترکات ڈھونڈ رہے تھے ، کہ کنفیڈریشن کے موقف پہ ہم سارے ایک ہونگے ۔ سردار عطاءاللہ مینگل نے گرچہ بعد میں بلوچستان نیشنل پارٹی بنائ لیکن اُس وقت وہ اپنے موقف میں واضح تھے کہ “کس ملک میں دستوری ضمانت کی بات ہورہی ہے؟ اُس ملک میں جہاں تین آہین بن کر غائب ہو چکے ہیں اور ان کی نقل بھی آپ کو نہیں ملے گی وہاں آپ کسی آرٹیکل کا واسطہ دے کر یہ تسلی کیسے دے سکتے ہیں کہ آئندہ آپ کی صوبائ خود مختاری محفوظ رہیگی؟ “ وہ پاکستانی وفاق کی غیر جاندار روح سے واقف تھے جہاں قومیتوں کی برابر کا تصور کہیں نہیں ہے ، وہ یہ سمجھتے تھے کہ “تینوں چھوٹی قومیتیں یکجا ہوں پھر بھی وہ وہ بڑی قومیت کے مقابلے میں چھوٹی رہتی ہے “ وہ اپنے کنفیڈریشن کے موقف کو مضبوط بنانے کے لیے نو آبادیاتی پارلیمنٹس میں قانون سازی کا بھی حوالہ دیتے رہے کہ کیسے کم آبادی رکھنے والی اکائ کسی فیڈریشن میں اپنے ساحل وسائل کے لیے قانون سازی کا برابر حصہ دار بن سکتا ہے ؟ لیکن ریاست طاقت کے خمار میں اس محاذ کو سننے کے لیے تیار نہیں تھی ، ایک بار پھر بابا مری کی بات سچ ثابت ہوئی کہ پنجاب کسی بھی صورت اختیارات سے دستبردار نہیں ہوگا ۔ اور بقول سردار عطاء اللہ مینگل کہ “ مجھے یقین ہے پنجاب ہماری اس خواہش (کنفیڈریشن) کے باوجود ہم کو دھکیل کر اس مقام تک لے جاۓ گا جہاں جاکر ہمارے سوال کا جواب پھر آذادی کی صورت نمودار ہوگا”سردار عطاءاللہ مینگل سیاست کے نشیب فراز سے گذر کر اپنی زندگی کے آخری ایام خاموشی سے گذار دئیے اور سابق وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات میں برملا کہا کہ “مجھ سے مل کر اپنا اور میرا وقت ضائع کررہے ہو” وہ اپنی نجی مجالس میں یہ دہراتے رہے کہ “بلوچستان نے آذاد ہونا ہے گر بلوچستان آذاد نہیں ہوا تو میرے قبر پہ آکر تھوکنا “ سردار عطاءاللہ مینگل ان تین سرداروں میں سے ایک سردار تھے ، جن کے بارے میں جنرل مشرف نے کہا کہ “تین سردار میرے مخالف ہیں تہتر سردار میرے ساتھ ہیں “ اب میر غوث بخش بزنجو کے دعوے دار سیاسی وارث نیشنل پارٹی کی صورت میں جبکہ سردار عطاءاللہ مینگل کے دعوے دار سیاسی وارث بلوچستان نیشنل پارٹی کی صورت میں فیڈریشن کی سیاست پہ گامزن ہیں، جبکہ بابا مری جن کے لیے نوآبادیاتی معاشرہ میں فیڈریشن اصطلاح درست نہیں اُن کی سیاسی سوچ کو ماننے والے مسلح مزاحمت کی سیاست کررہے ہیں ۔ نو آبادیاتی معاشرہ میں جب بات مسلح مزاحمت کی ہو تو وہاں نیشنل ازم ہی واحد صورت نظر آتی جس میں انسانی وجود ، انسانی آذادی کے لیے محکومیت کے خلاف بر سرپیکار ہو سکتا ہے ، قوموں کی آذادی ہی انسانیت و امن کے لیے اولین خشت کی حیثیت رکھتی ہے۔ محکوم اقوام کے ہوتے ہوۓ انٹرنیشنل ازم کا خواب یا انسانیت کا خواب ، ہمیشہ خواب ہی رہتا ہے

( یہ مضامین “میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں؟” سلسلہ یہاں وقتی طور پہ روک رہا ہوں اس سے آگے کا سلسلہ آج کے دور میں بلوچستان میں جاری پارلیمانی سیاست اور بلوچ قومی مزاحمتی سیاست ، آگے کے سلسلے انہیں پہ محیط ہوگا )

پس تحریر ۔ یہ سلسلے بلوچ نیشنل ازم پہ اجمالی خاکہ ہے ان مضامین میں مزید “تفصیلی طور پہ اکیڈمک کام “ کی ضرورت ہے جو کسی بھی وقت مکمل کرکے پی ڈی ایف کی صورت سامنے لاؤں گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں