میرے سیاسی اُستاد – امتیاز بلوچ

870

میرے سیاسی اُستاد

تحریر: امتیاز بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اُستاد کون ہوتا ہے؟ اُستاد کیوں ضروری ہے؟ویسے تو اُستاد کو کبھی بھی مکمل بیان نہیں کیا جاسکتا لیکن مجھ جیسا ادنٰی انسان جتنا اپنے اُستاد کو سمجھ سکا اور جتنا جان سکا وہ میں آپ کے سامنے ضرور پیش کروں گا۔ اُستاد وہ شخص ہے جو صحیح راہ دکھائے، صحیح منزل کی جانب نشاندہی کرکے بتائے، اندھیروں میں اُجالا بن کر دِھیمے کی مانند راستے کو روشن کرکے دکھائے اور جب تمھیں لگے کہ سب کچھ ختم ہوگیا ہے۔ تو وہ آکر آپ میں ایک ایسی روح پھونک ڈالے کہ آپ میں دوبارہ سے ایک امید کی کرن دکھ جائے۔اُستاد وہ ہوتا ہے جو آپ کو بتائے کہ کب، کہاں، کیسے اور کیوں کرنا چاہیئے؟ ایک عظیم اُستاد صاحبِ علم ہونے کے ساتھ ساتھ صاحبِ عمل بھی ہوتا ہے۔میری نظر میں اُستاد کا رُتبہ ایک عظیم رُتبہ ہے جو صرف صاحبِ علم ہونے سے مکمل نہیں ہوتا بلکہ اُسے صاحبِ عمل بھی ہونا چاہیئے۔اُستاد ضروری نہیں کہ ایک انسان ہو، اُستاد وقت اور حالات بھی ہوسکتے ہیں۔

اُستاد ضروری کیوں ہے؟ ہر وہ انسان جو زندگی کے کسی بھی شعبے سے وابستہ ہو خواہ وہ سیاست ہو، علمِ فلکیات ہو یا علمِ ریاضی ہو کسی نہ کسی طریقے سے اُسے رہنمائی کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ کیوں؟ کیوں کہ جب ایک انسان جس نے کبھی اس شعبے میں قدم نہیں رکھا جہاں وہ جانا چاہتا ہو پھر تو لازم سی بات ہے کہ بغیر رہنما کے وہ لڑکھڑا کر منہ کے بَل گرے گا۔وہ انسان جو اپنی منزل کی جانب دوڑے چلا جارہا ہے لیکن اُس کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں۔ جو اُسے بتا سکے کہ جس راستے کو چُن کر تم اپنی منزل کی جانب دوڑے چلے جارہے ہو وہ دَر اصل غلط راستہ ہے۔اگر انسان کو کوئی بتانے والا نہ ہو کہ جس سمت تم جارہے ہو دراصل غلط راستہ ہے تو انسان اپنی زندگی کے آخری لمحے میں بھی اپنی منزل تک نہ پہنچ سکے۔

میں اپنے آپ کو بڑا خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ میں نے ایک ایسے اُستاد سے تربیت پائی جو نہ صرف میرے اُستاد تھے، بلکہ بڑے بھائی کی طرح بھی تھے اور ابو کی جگہ بھی تھے۔ مجھے یاد ہے جب میں 7th کلاس میں پڑھ رہا تھا تو پہلی مرتبہ میرے ابو کے کزن مجھے اُستاد کے پاس لیکر گئے پڑھانے کیلئے تو اُس وقت وہ کراچی یونیورسٹی میں ایم اے سوشل ورک میں جامعہ کراچی سے پڑھ رہے تھے۔میرے اُستاد کا نام اختر بلوچ تھا۔وہ بنیادی طور پر تربت کے رہائشی تھے۔میں جب پہلی مرتبہ آپ سے ملا تو مجھے احساس ہوگیا تھا کہ آپ دوسرے ٹیچروں سے مختلف ہیں۔وہ میرے ابو کے کزن کے دوست تھے اور مجھے انگلش لینگویج پڑھانے کیلئے اُن کے پاس لیکر گئے۔ میں جب پہلی بار آپ سے ملا تو آپ نے مجھ سے ایک سوال پوچھا یہ یاد نہیں کہ کیا سوال پوچھا لیکن اتنا یاد ضرور ہے کہ میں نے اپنی حد تک جواب ضرور دیا تھا۔ میں اُس وقت سچ میں یہی سوچ رہا تھا کہ پتا نہیں کہ آپ کتنی فیس لینگے۔ جب جانے لگے تو میرے ابو کے کزن کے پوچھنے کے بجائے میں نے پوچھ لیا کہ سَر آپ کتنی فیس لینگے؟ تو وہ سامنے سے مجھے دیکھ کر مُسکرانے لگے اور کہا بیٹا! فیس کی فکر مت کرو۔ میری عمر اُس وقت اتنی نہیں تھی کہ میں آپ کی شخصیت کو جان سکتا لیکن ایک چیز ضرور آپ کے بارے میں معلوم ہوا کہ آپ الگ ہیں۔

جیسا کہ میں نے بتایا میں انگلش لینگویج پڑھنے کیلئے گیا تھا۔ میرے اُستاد بھی یونیورسٹی کے طالب علم تھے تو شام کو ایک گھنٹہ ہمارے لئے مختص کرتے تھے۔ میں جب پہلی مرتبہ پڑھنے کیلئے گیا تو دو دوست پہلے سے موجود تھے اور اُن کو بھی کچھ دن ہوگئے تھے۔ تو میں نے سوچا کیوں نا اپنے کزن کو بھی لیکر جاؤں۔ تو میں نے کزن کو اُستاد کے بارے میں بتایا تو وہ بھی پڑھنے کیلئے رضامند ہوگئے اور ہم ساتھ اُستاد کے پاس کلاس لیتے تھے۔اُستاد ہمیں تین سال تک پڑھاتے رہے لیکن فیس نہیں لی۔ جب ہمارا ٹیسٹ لیتے تھے تو ٹرافی بھی خود خرید کر لاتے تھے تاکہ ہم میں پڑھنے کا جنون پیدا ہو اور ہم مقابلہ کرنا سیکھیں۔ اُن کے کلاس کی ایک خاص بات یہ تھی کہ ہ دوسرے لینگویج کلاسس سے مختلف تھی کیونکہ وہ ایک گھنٹہ میں سے چالیس منٹ لینگویج پڑھاتے تھے اور بیس منٹ انگلش لینگویج سے ہٹ کر مختلف موضوعات پر لیکچر دیتے تھے۔میں اگر حقیقت بیان کروں تو اُن کی باتوں سے ہی میں بہت چھوٹی عمر میں ہی میچیور ہوگیا تھا۔ یہ سب آپ کے ہر ایک دن بیس منٹ کے لیکچرز کا کمال تھا۔

میں، میرے کزن اور میرے ساتھ تین دوست تھے جنھوں نے آپ سے تین سال لینگویج کے علاوہ بہت کچھ سیکھا۔اگر میں یہ کہوں تو بجا نہ ہوگا کہ ہم آپ کے ابتدائی شاگرد تھے۔ جب میں نے میٹرک ختم کی تو دوسرے بچوں کے مقابلے میں بہت کچھ جانتا تھا۔ آپ ہم پانچوں میں سے ہر ایک کیلئے ایک الگ رشتہ اور ایک الگ شخصیت رکھتے تھے۔ آج میں دل سے لکھ رہا ہوں، آپ میرے لئے بھائی بھی تھے، لیڈ ربھی تھے اور میرے سیاسی اُستاد بھی تھے۔

مجھے یاد ہے جب میں نے پہلی مرتبہ سیاست میں قدم رکھا تو آپ نے روکا نہیں بلکہ یہ کہا کہ “اگر تم سیاست میں قدم رکھ ہی رہے ہو تو ایک چیز یاد رکھو کہ اپنا معیار کبھی گرنے مت دینا” مجھے یہ بات آج بھی اپنے کانوں میں سنائی دیتی ہے۔ میں نے مقابلہ کرنا آپ سے سیکھا کیونکہ آپ نے ہمیشہ مجھے ہمت دی۔ مجھے یاد ہے جب میرا پہلا اسپیچ کا مقابلہ تھا تب آپ نے کہا تھا کہ امتیاز یہ اسپیچ تمھیں ہی جیتنا ہے۔ مجھے خوشی ہوتی ہے کہ میں آپ کی بات کی عزت رکھ سکا۔ اس کے بعد مسلسل جیتتا گیا اور بہت کچھ کیا۔ آپ نے مجھے کسی بھی چیلنج کو ایکسیپٹ کرنا سکھایا اور اُس چیلنج کو جیتنا سکھایا۔میں لکھنا تو بہت کچھ چاہتا ہوں لیکن سب کچھ لکھ نہیں سکتا۔

بہرحال، میں آپ میں ایک لیڈر دیکھتا تھا، مجھ میں آج جو کچھ ہے وہ سب آپ کی دی ہوئی تربیت ہے۔ آپ نے نا صرف پڑھایا بلکہ راستوں کو چننا اور راستوں کو جاننا بھی سکھایا۔ مجھے یاد ہے میں جب بھی ٹوٹ جایا کرتا تھا تو میں آپ کے پاس آتا تھا، تو آپ مجھے ہمت دیتے تھےاور ایک بار آپ نے مجھ سے کہا بھی تھا کہ امتیاز آپ میں ایک کمزوری ہے “ایموشنل” بہت ہوتے ہو اور سیاست میں ایموشنز کام نہیں کرتے اگر تمھیں جیتنا ہے احساسات سے زیادہ ایکشنز پر فوکس کرو۔

میں نے آپ کو دیکھ کر جانا کہ ایک لیڈر اور عظیم شخصیت ہوتی کیا ہے اُس میں کیا کیا ہونا چاہیئے اور کیا کیا نہیں ہونا چاہیئے۔آپ نے مجھے لوگوں کو پڑھنا سکھایا اور اُن کو جاننا سکھایا۔میں بہت کچھ لکھ سکتا تھا لیکن نہیں لکھا کیونکہ اگر میں لکھنا چاہتا تھا تو یہ پیج ختم ہوجاتے لیکن میرے الفاظ اور یادیں ختم نہ ہوتیں۔ میں نے اُستاد آپ کو یاد کیا، دل سے چند الفاظ آپ کے نام کیے اور اُمید ہے آپ قبول کریں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں