راولپنڈی: فیروز بلوچ کی عدم بازیابی کے خلاف طلباء کا احتجاج

282

راولپنڈی پیر مہر علی شاہ ائیریڈ ایگری کلچر یونیورسٹی میں بلوچ طلباء کی جانب سے ساتھی طالب علم کی جبری گمشدگی و عدم بازیابی کے خلاف احتجاج کیا گیا-

طلباء نے یونیورسٹی وائس چانسلر کی آفس کے سامنے دھرنا دیکر احتجاج پر بیٹھ گئے-

طلباء ساتھی طالب علم فیروز بلوچ کی عدم بازیابی کے خلاف احتجاج پر بیٹھ گئے- کیچ سے تعلق رکھنے والے فیروز بلوچ ائیریڈ یونیورسٹی راولپنڈی کے طالب علم ہیں جنھیں گزشتہ ماہ یونیورسٹی سے لائبریری جاتے ہوئے نامعلوم افراد نے جبری لاپتہ کردیا تھا-

لاپتہ طالب علم کی ساتھیوں کے مطابق فیروز بلوچ کو ملکی ادارواں نے حراست بعد لاپتہ کردیا ہے- طلباء نے بتایا کہ اس سے قبل بھی بلوچ طلباء کی پنجاب کے شہروں سے جبری گمشدگی میں سی ٹی ڈی اور خفیہ ادارے ملوث رہے ہیں-

فیروز بلوچ کی عدم بازیابی کے خلاف طلباء وی سی آفس کے سامنے دھرنے پر موجود تھیں- طلباء نے انتظامیہ اور پنجاب کے قانونی اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فیروز بلوچ کی بازیابی میں اپنا آئینی و قانونی کردار ادا کریں- طلباء کا مطالبہ تھا کہ سیکورٹی اداروں کی جانب سے بلوچ طلباء کو پنجاب کے تعلیمی اداروں میں ہراساں کرنے اور لاپتہ کرنے جیسے عمل کو روک کر طلباء کو تعلیم حاصل کرنے دیا جائے-

طلباء نے شکایت کی ہے کہ اس سے قبل بھی سیکورٹی اداروں نے بلوچ طلباء کو گرفتار کرکے جبری لاپتہ کردیا تھا طلباء نے بتایا کہ آئے روز بلوچ طلباء کو ہراساں کیا جاتا ہے تفتیش کے لئے تھانے بلا کر پروفائلنگ کی جاتی ہے-

یاد رہے بلوچ طلباء کی پنجاب سے جبری گمشدگی کے واقعات کا سسلسلہ پرانا ہے اس سے قبل لاہور، فیصل آباد، ملتان، اسلام آباد، بہاولپور میں زیر تعلیم طلباء کو حراست بعد لاپتہ کردیا گیا ہے جن میں رواں سال لاہور پنجاب یونیورسٹی سے بیبرگ بلوچ اس سے قبل زکریہ یونیورسٹی بھاولپور سے یاسین بشام اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے تھرڈ ایئر کے طالب علم الطاف نصیر بلوچ شامل ہیں-

بلوچ طلباء کی جبری گمشدگی کے دؤران طالب علم بیبرگ بلوچ کی سی ٹی ڈی کے ہاتھوں اغواء کی فوٹیج بھی منظر عام آگئی تھی تاہم اس واقعہ کے بعد بیبرگ بلوچ سمیت دیگر طلباء بازیاب ہوگئے ہیں-

بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز اٹھانے والی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مطابق ہزاروں کی تعداد میں بلوچ ریاستی خفیہ اداروں اور فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگیوں کا شکار ہوئے ہیں جن میں بڑی تعداد بلوچ طلباء کی ہے تنظیم کے مطابق بلوچستان، سندھ، پشاور، اور پنجاب کے مختلف علاقوں سے بلوچ طلباء کی سیکورٹی اداروں کے ہاتھوں گمشدگی کے اطلاعات رپورٹ ہوئے ہیں-

تنظیم کا مزید کہنا تھا کہ جبری گمشدگیوں کے اس فہرست میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں-