ذاکر مجید کی جبری گمشدگی کو 13 سال مکمل، کوئٹہ میں مظاہرہ

510

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائیزیشن آزاد کے لاپتہ سابق وائس چیئرمین کی 13 سالہ جبری گمشدگی و بلوچستان سے لاپتہ افراد کے دن کے حوالے سے کوئٹہ میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا- مظاہرے میں لاپتہ افراد کے لواحقین، سیاسی و سماجی تںطیموں کے رہنماؤں کارکنان سمیت، طلباء نے بڑی تعداد میں شریک ہوئے-

مظاہرے میں لاپتہ سیاسی رہنماء زاکر مجید بلوچ کی والدہ، لاپتہ انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین کی والدہ، لاپتہ کفایت اللہ کی اہلیہ، لاپتہ سجاد کے ہمشیرہ، خضدار کے رہائشی لاپتہ آصف اور رشید کے ہمشیرہ سائرہ بلوچ، نوشکی سے جبری گمشدگی کے شکار نصیب اللہ کے لواحقین، کوئٹہ سے جبری گمشدگی کے شکار انجینئر ظہیر بلوچ کے ہمشیرہ سمیت دیگر لاپتہ افراد کی لواحقین شریک ہوئیں-

مظاہرین سے گفتگو کرتے ہوئے زاکر مجید کی والدہ کا کہنا تھا کہ میرے بیٹے زاکر مجید کو لاپتہ کئے گئے سالوں بیت گئے لیکن آج تک اسے کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا- زاکر مجید کی والدہ نے کہا میں پوچھنا چاہتی ہوں کہ میرے بیٹھے کا گناہ کیا ہے اذیت کے تیرہ سالہ طویل انتظار کے باوجود میرے بیٹھے کو رہا نہیں کیا جارہا-

زاکر مجید کی والدہ کا کہنا تھا کہ میرے بیٹے کا گناہ ایک سیاسی ورکر ہونا ہے اپنے حق کے لئے آواز اٹھانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ زاکر خضدار سے پہلے لاپتہ شخص ہیں، لاپتہ افراد کی کیمپ زاکر کی بازیابی کے لئے قائم ہوئی تھی آج اس میں ہزاروں بلوچ بچوں کی تصاویر موجود ہیں جنھیں اسی طرح لاقانونیت میں لاپتہ کردیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک زندہ ہوں بیٹے کی بازیابی کے لئے جہدو جہد کرتی رہونگی ہمارے لئے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں یہاں کے نمائندے اپنے ووٹ کی سیاست کرتے ہیں لیکن ہمارے بچوں کے لئے آواز نہیں اٹھاتے-

مظاہرین میں موجود چار ماہ قبل بلوچستان کے علاقے منگچر سے جبری گمشدگی کا شکار ہونے والے کفایت اللہ کی اہلیہ نے بتایا کہ کفایت اللہ کو ریاستی اداروں نے میرے سامنے حراست بعد لاپتہ کردیا تھا۔ میرے دو چھوٹے بچے ہیں اوہ وہ خود بیمار ہیں- کفایت اللہ کی اہلیہ نے شوہر کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ انکی شوہر ایک استاد ہیں انہوں نے کوئی غیرقانونی عمل نہیں کیا اگر ان پر کوئی جرم ہے تو عدالت میں لاکر پیش کیا جائے-

لاپتہ بلوچ کارکن راشد حسین کی والدہ نے مظاہرین سے گفتگو میں بتایا کہ انکے بیٹے کے جبری گمشدگی کو چار سال سے زائد کا عرصہ مکمل ہونے کو ہے ۔ انہوں نے کہا کہ رواں سال 21 جون کو راشد کے پاکستان حوالگی و گمشدگی کو تین سال مکمل ہونے والے ہیں جس کی خلاف کوئٹہ پریس کلب سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا جائے گا-

راشد حسین کی والدہ نے مظاہرین سے درخواست کی ہے کہ وہ 21 جون کو ہونے والے مظاہرہ میں شرکت کرکے بیٹے کی بازیابی میں انکی آواز بنیں-

مظاہرین میں سعیدہ بلوچ بھی شریک تھی جن کے مطابق انکے بھائی سجاد احمد، اور بھتیجے ظہور احمد کو ریاستی اداروں نے کوئٹہ سے حراست میں لیکر لاپتہ کردیا ہے- مظاہرین سے گفتگو میں سعیدہ بلوچ نے کہا کہ لاپتہ افراد کے درد کو صرف لاپتہ افراد کی لواحقین سمجھ سکتے ہیں ہمارے یہاں مائیں اس امید سے راتوں کو دروازے بند نہیں کرتے کہ انکے بچے شاید بازیاب ہوکر آجائیں-

انہوں نے کہا پاکستان کی اپنی ہی آئین جبری گمشدگیوں کی اجازت نہیں دیتی اگر لاپتہ افراد پر کوئی جرم ہے تو اپنے ہی عدلالتوں میں لاکر احتساب کریں یہ کیسی ریاست ہے کہ بلوچ ماؤں کی آنسو اسے نظر نہیں آتے ہیں۔

لاپتہ ظہیر بلوچ کی ہمشیرہ عظمیٰ بلوچ نے کہا کہ مجھے بتایا جائے کہ ہم اپنے بھائی کو کہاں تلاش کریں، یہ آٹھ ماہ نہیں آٹھ سال ہوگئے۔ ہمارے لئے بھائی پر کوئی جرم عائد ہوتی ہے تو عدالتوں میں پیش کرکے انصاف فراہم کیا جائے-

نوشکی سے حراست بعد لاپتہ نصیب اللہ کے والدہ نے بھی مظاہرین سے انکے بیٹے کی بازیابی میں کردار ادا کرنے کی درخواست کی ہے-

سائرہ بلوچ کا کہنا تھا کہ انکے بھائی اور کزن آصف و رشید کو نوشکی سے پکنک کے دوران لاپتہ کردیا گیا تھا جس کے بعد سیکورٹی فورسز نے انکی گرفتاری تصدیق بھی کی تھی تاہم انہیں کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا بھائی اور کزن کی غیر قانونی حراست و جبری گمشدگی کے خلاف انصاف کے ہر دروازے کو کھٹکھٹایا لیکن انصاف نہی ملی-

اس موقع پر لواحقین سے گفتگو میں ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے اس کیمپ کی بنیاد زاکر مجید کی گمشدگی کے دوران انکی بہن فرزانہ مجید نے قائم تھی اور وہیں سے ہم نے اس جہدو جہد کا آغاز کیا۔ ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ اس طویل جہدو جہد میں کئی ساتھی ہمارے شہید ہوئے لاپتہ افراد کے بازیابی تک ہم اپنی جہدو جہد جاری رکھینگے –

مظاہرین سے خطاب میں نیشنل پارٹی کے ضلعی صدر نیاز بلوچ نے کہا کہ لوگوں کو لاپتہ کرنے میں براہ راست ریاست اور اسکے ادارے ملوث ہیں ملک کا آئین قانون کسی کو اجازت نہیں دیتا وہ کسی شہری کو اغواء کرکے لاپتہ رکھے اگر کسی پر کوئی جرم عائد ہوتی ہے تو اسے عدالت میں پیش کرے یہاں لوگوں کو سالوں لاپتہ کرکے پھر انکی مسخ شدہ لاش پھینکی جاتی ہے لیکن ان سے سوال کرنے والا کوئی نہیں-

ایکٹویسٹ بیبرگ بلوچ نے گفتگو میں کہا کہ زاکر مجید میرا سیاسی استاد تھا آج وہ تیرہ سالوں سے زندانوں میں ہیں ہمیں لاپتہ افراد کا کرب محسوس ہوتا ہے زاکر کی والدہ سالوں سے فریاد لیکر پریس کلب اور عدلالتوں میں گھوم رہی ہے لیکن یہاں بلوچ کے لئے انصاف ناپید ہے ریاست یہاں لوگوں کو گھروں میں گھس کر لاپتہ کردیتی ہے۔ جب چند روز قبل پولیس کی جانب سے لاہور پنجاب میں ایسے واقعات ہوئے تو پورے میڈیا پر شور تھا اور یہی عمل ریاستی ادارے بلوچستان میں کرتے ہیں گھروں میں گھستے ہیں لوگوں کو تشدد کرکے لاپتہ کردیتے ہیں ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا نا میڈیا ان کی فریاد سنتا ہے-

مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ نے کہا کہ آج بلوچستان سمیت پاکستان کے کونے کونے سے بلوچ لاپتہ کئے جارہے ہیں جب وزیر اعظم یہاں آئے تو وہ بے اختیار دکھائی دیئے۔ انہوں نے کہا کہ وہ با اختیار لوگوں سے بات کرینگے اور یہاں کے عوامی نمائندے کرسی پر چپکے رہتے ہیں لیکن لاپتہ افراد پر لب کشائی نہیں کرتے-

نصر اللہ بلوچ نے احتجاجی مظاہرہ کو اختتام کرتے ہوئے کہا کہ ملکی ادارے لاپتہ افراد کی فریاد سن کر انہیں انصاف کریں-

دوسری جانب لاپتہ افراد کی دن کے حوالے سے سوشل میڈیا پر بلوچ سوشل میڈیا ایکٹویسٹ و بی ایس او آزاد کے کارکنان کی جانب سے جبری گمشدگیوں و لاپتہ زاکر مجید بلوچ کی بازیابی کے لئے آن لائن کیمپئن کی جارہی ہے-