خیربخش مری کے ذکر کے بغیر بلوچ نیشنلزم کی تاریخ و تشریح نا مکمل ہے۔ بی این ایم

358

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مختلف زونز کے اراکین نے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بلوچ قومی رہنماء بابا خیربخش کے یوم وفات کے سلسلے میں یادگاری تقریبات کا انعقاد کیا۔

اس سلسلے میں ایک یادگاری تقریب کی صدارت مرکزی جونیر وائس چئیرمین بابل لطیف بلوچ نے کی۔ تقریب کا آغاز شہدائے بلوچستان کی یاد میں دو منٹ خاموشی سے ہوا۔

یادگاری ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مرکزی جونئیر وائس چئیرمین استاد بابل لطیف نے کہا کہ جو قومیں قبضہ گیر کے خلاف اعلان جنگ نہیں کرتیں وہ قوم اپنا تشخص کھو کر تباہ و برباد ہوجاتی ہیں۔ موت ایک اٹل حقیقت ہے جو ہر حال میں آنی ہے اس لیے ہم اپنی زندگی کو قوم کے نام تعبیر کرکے دنیا کی تاریخ میں خود کو زندہ رکھیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ اگر ہم بلوچ قومی جدوجہد آزادی اور بلوچ نیشنلزم کا ذکر کرتے ہیں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ باباخیربخش مری کے ذکر کے بغیر بلوچ نیشنلزم کی تاریخ و تشریح نا مکمل ہے۔

آج باباخیربخش کا فکر و فلسفہ ہے کہ بلوچ شہداء ، سرمچاروں اور جہدکاروں نے اس فکر و فلسفے پر عمل کرکے جنگ کو اس دہانے پر پہنچا دیا ہے کہ جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔ماضی میں ہم جنگ ویتنام، جنگ الجزائر، جنگ بنگلہ دیش کا مطالعہ کرتے تھے یا ان کا حوالہ دیتے تھے لیکن آج بلوچستان میں وہی واقعات رونما ہورہے ہیں اور ہمارا تعلق اس نسل سے ہیں جو ان تمام واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔ آج نہ بلوچ کی عزت محفوظ ہے، نہ وسائل اور نہ ہی بلوچ فرزند اور بلوچ دختر۔ کل جب ہم اس جنگ آزادی کو حتمی منزل تک پہنچانے میں کامیاب ہوں گے تو دنیا کے دیگر مظلوم اقوام بطور مثال بلوچ قوم کی قربانی و فکر کا حوالہ دیں گے۔

استاد بابل لطیف بلوچ نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا کہ دنیا کا کوئی بھی شخص مکمل نہیں ہوتا اورکوئی بھی نامور رہنماء بغیر تنقید کے مکمل نہیں ہوتا۔بلاشبہ بابا خیربخش کی شخصیت پر تنقید بھی کی جاسکتی ہے ان سے کچھ غلطیاں بھی سرد زد ہوئی ہوں گی اور بطور انسان ان میں کچھ کمزوریاں بھی پائی جاتی ہوں گی لیکن ان کی قربانی و فکر ہمیشہ ہماری رہنمائی کرتے رہیں گے۔

تقریب سے بی این ایم کے سینٹرل کمیٹی کے ممبران چیف اسلم بلوچ اور حمید نے بلوچ نے بھی خطاب کیا ، انھوں نے اپنے خطاب میں کہا بلوچ جدوجہد آزادی میں جان کی قربانی پیش کرنے والے تمام شہیدا بلوچ قوم کے ہیرو ہیں جنھوں نے جان کی قربانی دیکر بلوچ قوم کو ایک نیا فکر و فلسفہ عطا کیا۔ اسی طرح ہمارے قومی رہنماء بابامری کی سیاسی سوچ و مسلح جدوجہد نے قوم کو ایک نئے فکرو عمل سے روشناس کرایا۔

مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قومی تحریکوں میں پارٹی اور تنظیموں کا کردار اہم ہوتا ہے کیونکہ دنیا میں جتنی بھی قومی آزادی کی تحریکیں اپنی منزل تک پہنچیں ان کو منزل تک پہنچانے کا سہرا پارٹی اور تنظیموں کو جاتا ہے۔کیونکہ فرد فنا ہوجاتے ہیں لیکن فرد کا فکر و نظریہ آگے لے جانے میں پارٹی اور تنظیموں کا کردار اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔

اس سلسلے میں اور تقریب سے بی این ایم ویلفیئر سیکریٹری ماسٹراقبال بلوچ اور سینٹرل کمیٹی کے ممبر حنیف بلوچ اور دیگر نے شرکت کی۔ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مرکزی رہنماؤں نے کہا بابا خیربخش مری ایک عالم اور دور اندیش سیاستدان تھے۔

انھوں نے اپنے پوری زندگی بلوچ قومی تحریک آزادی اور بلوچ قوم کی بقاء اور ایک روشن مستقبل کے لیے صرف کردی آج آپ اپنے قوم کے اندر جسمانی طور پر موجود نہیں ہیں لیکن آپ کا پختہ نظریہ اور سیاسی و مزاحمتی فکر بلوچ قوم کے ہر فرزند کے ذہن میں موجود ہیں ۔بلوچ قومی آزادی اور قومی بقاء کی خاطر آپ نے صعوبتیں برداشت کیں اور جلاوطن رہے لیکن قابض ریاست کے سامنے سرجھکانے کی بجائے آخری دم تک اپنے قومی موقف پر ڈٹے رہے۔

اسی سلسلے میں ایک اور یادگاری تقریب میں مردممبران کے علاوہ خواتین ممبران کی بھی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس تقریب میں بی این ایم کے سینئرکارکن کمبربلوچ نے شرکاء کو باباخیربخش مری کی زندگی ، فلسفہ اور سیاست سے روشناس کرایا۔

انھوں نے کہا باباخیربخش مری کا کردار بلوچ آزادی کی جدوجہد میں ہماری مکمل رہنمائی کرتا ہے۔