بی ایچ آر سی نے اقوام متحدہ کی توجہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں پر مبذول کرائی

481

اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کے 50ویں اجلاس کے موقع پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سامنے اپنے ایک تحریری بیان میں بلوچ ہیومن رائٹس کونسل (بی ایچ آر سی) نے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے لرزہ خیز واقعات پر روشنی ڈالی۔

بی ایچ آر سی نے اپنی تعاونی ایکوساک تنظیم، تموکو ڈویلپمنٹ اینڈ کلچرل یونین کے ذریعے، اپریل 2022 میں بلوچستان میں رونما ہونے والے جبری گمشدگیوں کے واقعات کی تفصیلی رپورٹ پیش کی۔ جس کے مطابق اس مہینے کے دوران، سیکورٹی فورسز اور انکی پراکسی ڈیتھ اسکواڈز نے کئی بلوچوں کو جبراً اٹھا کر غائب کیا جن کی اکثریت ابھی تک لاپتہ ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق سیکرٹری جنرل کو بلوچ ہیومن رائٹس کونسل کا تحریری بیان موصول ہوا ہے اور جسے اقوام متحدہ کی اقتصادی اور سماجی کونسل کی قرارداد 1996/31 کے مطابق شائع کیا گیا ہے۔

بی ایچ آر سی کے بیان میں اقوام متحدہ کو بتایا گیا ہے کہ بلوچ اور پاکستان کے درمیان جاری طویل تنازعہ میں، ریاست پاکستان غیر قانونی حراست اور جبری گمشدگیوں کو بلوچ قومی مزاحمت کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی آرہی ہے۔ جہاں سیکیورٹی فورسز اور ‘ڈیتھ اسکواڈز’ سیاسی کارکنوں، شاعروں، طلباء، صحافیوں، دانشوروں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو اغوا کرتے ہیں- وہ انہیں غیر قانونی حراست میں رکھتے ہیں، غیر انسانی تشدد کرتے ہیں اور پھر ان کی مسخ شدہ لاشیں بلوچستان کے دور دراز اور ویران علاقوں میں پھینک دیتے ہیں۔ بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ (ڈیتھ اسکواڈس بلوچستان میں ریاستی سیکیورٹی اداروں کے زیر اہتمام سماج دشمن اور انتہا پسند مذہبی عناصر کے گروہ ہیں)- اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں کے مطابق پاکستانی سکیورٹی فورسز اور اس کے معاون اداروں کے ایسے اقدامات جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔

بی ایچ آر سی نے بتایا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر عالمی برادری کی فوری توجہ اور مداخلت کی ضرورت ہے۔ بلوچستان گزشتہ دو دہائیوں سے بین الاقوامی میڈیا کے لیے ایک غیر اعلانیہ نو گو ایریا رہا ہے اور نتیجتاً بلوچستان سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی خبریں بہاری دنیا تک پہنچ نہیں پاتی ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ کو فوری طور پر بلوچستان میں فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیجنا چاہیے تاکہ صورتحال کی سنگینی کا پتہ لگایا جا سکے۔