سیو اسٹوڈنٹس فیوچر کی جانب سے خضدار میں ڈاکٹر مبارک علی کی “تاریخ اور سیاست” نامی کتاب پہ جائزاتی و تبصراتیاسٹڈی سرکل منعقد کیا گیا۔اسٹڈی سرکل تنظیم کے ایجوکیشنل سیکریٹری سلیم بلوچ اور دیگر ذمہ داران کی موجودگی میں منعقد ہواجس میں اسپیکر نعمان بلوچ تھے۔
مذکورہ کتاب پہ تبصرہ کرتے ہوئے نعمان بلوچ نے کہا کہ کسی بھی کتاب کو پڑھنے سے پہلے مصنف کے بارے میں جانکاری لازمیامر ہے کیونکہ ہر مصنف غیر جانبداری یا پھر حقیقت کی جانبداری کا اظہار نہیں کرتا۔
مذکورہ کتاب کے مصنف نے بہت ساری کتابیں مختلف موضوعات پہ لکھی ہیں جن کے مطالعہ سے قاری کو یہ رائے قائم کرنے میںدقت نہیں ہوتی کہ مصنف غیر جانبدار و حقیقت پہ مبنی حقائق کو بیان کرتے ہیں، ڈاکٹر مبارک علی ایک محقق اور تاریخ نویس ہیںجنھوں نے تاریخ کے مختلف موضوعات پہ متعدد کتابیں لکھی ہیں۔
مذکورہ کتاب ایک مستند کتاب ہے جو ماضی کے دریچوں سے سیاست اور سماج کے ان پہلوؤں کو مد نظر رکھ کے تصنیف کی گئیہے کہ عوام کو اقتدار پسند قوتوں نے ہمیشہ سیاسی حوالے سے یا تو تاریخ کو توڑ مروڑ کے یا پھر تاریخ کو محدود کرکے اور حقائقکو چھپا کر عوام کو بیوقوف بنانے کی کوششیں کی۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں اسکی مثال یہ ہے کہ اکثر ریاستیں دوسرے خطوں کی تاریخ سے نابلدگی کے نتیجے میں خود کو طاقتورسجھتے ہوئے نرگسیت کا شکار ہوکر تاریخی عمل کا حصہ نہ بن سکیں۔
ماضی میں بادشاہی نظام اور حال میں جمہوریت کے لبادے میں اقتدار کے بھوکے من پسند تاریخ لکھ کر یا لکھوا کر تاریخی عمل میںجانبداری کرنا چاہتے ہیں حالانکہ دنیا نے کئی بار اس بات کا عملی طور پہ تجربہ بھی کیا ہے کہ تاریخی عمل کبھی بھی جانبدارنہیں ہوسکتا خواہ فطرت کے مخالفین اس عمل کو کتابی اوراق میں کتنا ہی جانبدار ظاہر کرتے رہیں۔
نام نہاد مورخین نے تاریخ کو اپنے آقاؤں کے مقاصد کی تکمیل میں استعمال کرکے نفرت اور تعصب کو فروغ دینے کا کام لیا،تعلیمیاداروں میں زہن سازی کے لئے سرمایہ دار اور اقتدار پسند قوتیں صرف اس مواد کا سہارا لیتی ہیں جو موجودہ سیاسی ضروریات کاحصہ ہے، یورپی اقوام نے محکوم اقوام کو مغربی تہزیب میں ضم کرکے ان کی انفرایت پہ کاری ضرب لگا کر انکی تہزیبی شناخت کومٹایا اور انکی تاریخ کو مسخ کرکے رکھ دیا سامراج دنیا میں آج بھی مختلف طریقوں سے پسماندہ اقوام کی تاریخ کو مسخ کرنے کاعمل جاری رکھے ہوئے ہے.
اس خطے میں مورخوں کی جانب سے تاریخ میں پسند و ناپسند اور مذہبی عقائد کا استعمال کرکے تاریخ کو مسخ کرنے کا اندازہ ہماس بات سے بہ آسانی لگا سکتے ہیں کہ کیسے یہاں تاریخ کو محمد بن قاسم کے بعد والے دور سے لکھ کر پہلے والے ادوار سے نظریںچرائی جاتی ہیں، یا پھر مغلیہ دور میں تاریخ کو اشوک و اکبری دور وغیرہ میں تقسیم کرکے، اسلامی تاریخ میں تاریخ کو دور جاہلیتو دیگر ادوار میں تقسیم کی وجہ سے دور جاہلیت کے تصور نے مسلمان معاشرے کے تاریخی شعور کو بڑا نقصان پہنچایا اسمفروضے کو بنیاد بنا کر گزشتہ عہد کے مطالعہ کو بیکار قرار دیا گیا اور اس دور کے علمی کارناموں کو کافروں کی پیداوار قرار دے کررد کردیا گیا.
مذکورہ کتاب کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ حکمرانوں نے اپنے تاریخ نویسوں کی مدد سے تاریخ کو ہمیشہ مسخ کرنے کیکوششوں پہ زور دیا ہے، تاریخ کو ایسے پیش کیا گیا ہے جیسے تاریخ شخصیات کی ملکیت ہے، مصنف ان غلطیوں کی وضاحت انالفاظ میں کرتا ہے “تاریخی عمل جب آگے بڑھتا ہے تو وہ کسی خاص شخصیت کا محتاج نہیں ہوتا کیونکہ حالات کا دباؤ اس قدرشدید ہوتا ہے کہ ایک کام ضرور تکمیل تک پہنچ جاتا ہے۔ جب یورپ کے معاشرے میں پندرہویں صدی سے تبدیلی کا آغاز ہوا تو انحالات میں انھوں نے تجارت کی غرض سے بحری راستوں کی تلاش کی اور اسی ضرورت کے تحت واسکوڈی گاما اور کولمبس نے نئےراستوں اور ملکوں کو دریافت کیا۔ لیکن اگر یہ نہ ہوتے تب بھی ان راستوں کی دریافت ضرور ہوتی کیونکہ یہ حالات کا تقاضا اور وقتکی ضرورت تھی۔ اور جہاں حالات نے انھیں پیدا کیا وہاں یہ کسی اور کو بھی پیدا کر سکتے تھے۔”
انکا کہنا تھا کہ بلوچ تاریخ بھی اسی جبر کا شکار ہوئی بیرونی مورخوں نے من پسند تاریخ لکھ کر اور تاریخی حقائق کو توڑ مروڑ کربلوچ قوم کو لسانی کنفیوژن، نصب العین وغیرہ میں الجھا دیا ہے، بلوچ مورخین کا کسی حد تک تو تاریخی حقائق پہ سائنسی وتحقیقی کام موجود ہے لیکن پھر بھی بہت سارے ابہام اب تک موجود ہیں جس کے لئے نوجوان طبقہ خصوصاً طلبہ طبقے کو تاریخ پہسائنسی بنیادوں پہ تحقیق کرکے ان ابہامات کو دور کرنے کی ضرورت ہے.
اسٹڈی سرکل کے آخر میں شرکاء نے بھی موضوع کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا اور شرکاء کے سوالوں کے تفصیلی جواباتدیئے گئے.