آٹھ جون فیروز،زاکر اور نہرو کے ماں کے نام ۔ یوسف بلوچ

503

آٹھ جون فیروز،زاکر اور نہرو کے ماں کے نام

تحریر: یوسف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

فیروز میں نہیں جانتا آپ ہو کہاں؟ کیا ہوا آپ کو۔۔۔ ماں کے الفاظ ہیں جو یہ تک نہیں جانتی کہ راولپنڈی کہاں واقع ہے۔ ایرڈ یونیورسٹی کا تلفّظ دشوار ضرور تعلیم کی تعریفیں سُن کر باپ کی تنخواہ پر منحصر بڑا بیٹا فیروز دُور دراز “ملک” میں پڑھنے گیا تھا۔ جسے آپ نسبتاً محفوظ ٹکڑے سے اقتباس کر سکتے ہیں۔

ماں کے اردگرد فیروز کی ننھی بہن، کم عمر بھائی اشکبار، ماں دیکھ رہے ہیں، سوچ رہے ہیں، کیا بیت رہی ہے نہیں جانتا کیا سکھائے، بتائے جا رہے ہیں حالات مغوی و اغواکار دونوں ہی جانتے ہیں۔ بیٹے کی گمشدگی کا آہنی بوجھ ماں برداشت کر ریا ہے۔ ننھی پری دیکھ رہی ہے،خاندان غمزدہ ہے باپ اشکبار۔

نسبتاً محفوظ ٹکڑے یا “ملک” شاید ہو محفوظ کسی کے لیے۔ نہرو کی ماں کی پکار کو محفوظ ضرور کر رہا ہے سن نہیں رہا۔ بلوچ طلبا کے نعرے بے معنی خیز بنانہ ریپبلک کے دائیں بائیں جانب سامعین کے لیے آئیں بائیں شائیں ہیں۔ سچل کے لیے تربیتی مرکز کے بے نون اور دال ہیں۔

زاکر کی ماں تیرہ سالوں سے چیخ و پکار رہی ہے۔ آنسوؤں سے کھو بیٹھ رہے ہیں۔ دردِ دل کی آہٹ پریس کلب پر دھڑک رہے ہیں، قریبی عمارتوں تک نہیں پہنچ پاتے۔ گوانتاموبے تک جاتے نہیں۔

زاکر کی ماں میری ماں! مستونگ میں ہنستا بستا مسکراتا زاکر کی جبری گمشدگی سے آنسوؤں کا بازار کب تک بسانا ہے۔ اتنی ہمت کا شاہکار بیٹے کا درد بنا سکتا ہے۔

قّصّوں،قیصدے،نوحے کے بیچ جو ان کہی ہے وہ ماں ہے۔
تیرہ سال کی مزاحمت بیٹے کے لیے تیرہ دن کے برابر۔ ماں کے لیے تیرہ دن کی خدمت۔ لیکن بیٹے کی جدائی زاکر کی ماں کے لیے تیرہ سو سال، فیروز کی ماں کے لیے چوبیس ماں اور مدثر کی ماں اگست تک دو صدی کی انتظار مدثر کا منتظر۔

بلوچستان کے ماؤں کی لخت جگر، فیروز ایک داستان ہے شاید کچھ لوگوں کے لیے۔ بلوچستان کی ماؤں کے لیے شاید بیٹوں کو تعلیم سے دوری کا ایک سبق لیکن بلوچستان کے مائیں اسے مزاحمت سمجھتی ہیں۔

تعلیم سے دوری کے نتائج بھگتنے والی مائیں اب لختِ جگر کی جبری گمشدگی کا درد دل میں سمائے تعلیم یافتہ فیروز کی مہم کی جنگ لڑیں گے۔ برادشت کے محاذ پر آنسو بہا کے لڑیں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں