آر سی ڈی؛ ایک خونی شاہراہ ۔ اسلم آزاد

400

آر سی ڈی؛ ایک خونی شاہراہ

تحریر: اسلم آزاد

دی بلوچستان پوسٹ

آر سی ڈی شاہراہ بلوچستان کی سب سے طویل روڑ ہے جو پورے بلوچستان کے نہ صرف ایک ضلع کو دوسرے ضلع سے منسلک کرتا ہے بلکہ پورے بلوچستان کو پاکستان کے دوسرے صوبوں سے بھی ملاتا ہے۔

لیکن ایسا کوئی دن نہیں، جو بغیر انسانی جانوں کی زیاں کے بغیر گزرتا ہے۔ کیا روزانہ حادثات ہونا اور قیمتی انسانوں کے لاش اٹھانے کا اہل بلوچستان عادی ہوچکا ہے؟ کیا سامراج ریاست کے سامنے بے بس ہوگئے ہیں؟ یا بلوچستان کے باسیوں نے سامراجی غلامی کو زہنی طور پر تسلیم کر کے زلالت کی زندگی گزرنے پر سمجھوتا کرلیا ہے۔

اگر اس روڑ پر ایک نوآبادیاتی جائزہ لیا جائے تو قابل فہم لوگوں کو یہ سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ یہ ایک مسافر بس یا کار والا روڈ نہیں بلکہ یہ ایک مال بردار روڈ ہے جو کہ سامراجی ریاست نے اپنی زمینی تعطیلات کے لیے بنایا ہے کہ وہ بلوچستان کے ساحل اور وسائل کا آسانی سے استحصال کریں، وہ بلوچستان کی معدینات کو آسانی سے پنجاب کو منتقل کریں۔

آر سی ڈی شاہراہ پر روزانہ کی بنیاد پر حادثات ہونا، اور ان حادثات کی بنیادی وجہ تحقیق نہ کرنے سے یہ صاف صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پاکستانی سامراج کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے، تاکہ بلوچستان کی آدھی آبادی یہیں سے ختم کردیں، جو ریاست کے لیے رکاوٹ پیدا کررہے ہیں، یہ حادثات ریاستی دہشت گردی کا ایک اٹوٹ تسلسل ہیں۔

ہر وہ عمل جس میں انسانی بنیادی حقوق یا جان و مال کی پامالی ہو اس عمل میں ریاست براہ راست یا بالواسطہ ملوث ہے، تو وہ عمل ریاستی دہشت گردی کے زمرے میں شامل ہوجاتی ہے۔

ضروری بات یہ ہے کہ سامراج ریاست نوآبادکاری کو مٹانے کے لیے نہ صرف اپنی نفسیاتی، سیاسی، سفارتی، عسکری دستے کو استعمال کرتا ہے۔ سامراج ہر وہ مشینری جو سامراجی ریاست کے پاس موجود ہے اس کو استعمال کرتے ہیں مقامی آبادی کو نیست و نابود کرنے میں بروئے کار لاتا ہے، کیونکہ سامراج کو قبضہ گیر سماج اور اس کے لوگوں کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ اس کا مقصد صرف اور صرف اس سر زمیں سے نکلنے والے وسائل کا لوٹ مار کرنا ہے۔

ریاستی دہشت گردی کے مختلف اقسام بلوچستان میں تجربہ ہو رہے ہیں، مثال کے طور پر 1۔ جان لیوا نشہ کا استعمال، 2۔زہنی بیماری، 3۔ بے روزگاری(economic strangulation)، 4۔ بے تعلیمی،5۔ مذہب کا ناجائز استحصال، 6۔ قحط سالی 7۔ معیشت کشی 8۔سیاسی و اخلاقی بحران، 9۔ زبان کشی (intellectual genocide) کے ساتھ ساتھ اور 10۔ روڈ ایکسیڈنٹ بھی شامل ہیں۔

اب اس میں حیرانگی یا راکٹ سائنس نہیں ہے کہ لوگوں کو سمجھ نہیں آتا اس لیئے وہ ریاستی دہشت گردی کے بجائے کبھی ڈرائیور اور کبھی ٹریفک قوانین کو مسئلہ قرار دیتے ہیں۔ در حقیقت یہ نہ ڈرائیور نہ قوانین کا مسئلہ ہے بلکہ بنیادی صورت میں ایک تو روڈ کا نقشہ، دوسری بات سنگل روڈ ہے جسے سرکار سوچے سمجھے منصوبہ بندی کے تحت ڈبل روڈ نہیں کرتا تاکہ ہر گھر کا کم از کم ایک شخص یہاں زوال ہوجائے، نوآبادکار اپنی استحصالی پالیسی کو آگے بڑھانے میں کامیاب رہے۔

مسافر بسوں کے الٹنے، جھلسنے کے بعد بلوچستان کے کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ اور گورنر روایتی طور پر اپنے آقا (فوجی اسٹیبلشمنٹ ) کے کہنے پر ایک سیاسی بیان دیتے ہیں، بے بس بلوچوں کے ساتھ جھوٹا اظہار ہمدردی اور زخمیوں کو مرہم کرنے کے بجائے خاندان والوں کے لیے ایک دو لاکھ کا مالی امداد کا سیاسی اعلان کرتے ہیں تاکہ مقامی لوگ وقتی طور پر خاموش ہوں، ریاستی نسل کش پالیسی کے خلاف سخت ردعمل ظاہر نہ کریں۔

حادثے کے بعد لوگ اپنے پیاروں کی لاشیں دفنا کر، دو دن بعد دوبارہ اپنی معمول کی زندگی میں مصروف عمل ہوتے ہیں۔ بلوچستان کے مظلوم عوام کب تک لاشیں اٹھاتے رہینگے؟ کب تک جنازہ پر جنازہ اور فوتیگیوں کا دعاے مغفرت کرتے رہینگے۔ اس سلسلے کو اب بند کرنے کی اشد ضرورت ہے جو مسلح جد و جد سے صرف ممکن ہے۔

اب وقت آگیا ہے کہ بلوچستان کے غیور عوام اپنی آزادی کے لیے آواز بلند کریں۔ ورنہ وہ دن دور نہیں کہ کل ہم بھی ایک روڈ ایکسیڈنٹ (ظالمانہ پالیسی) کا نظر ہونگے اور دوسرے لوگ چپ چاپ خاموشی کے ساتھ ہمارا بھی جنازہ اٹھاینگے۔ اٹھو اپنے حق کے لیے آواز اٹھائیں “یوں نہ ہو آپکی یہ خاموشی، آپکی یہ بزدلی کل آپکے بچوں کے لیے رونے کا سبب بن جائے”

لیکن اس سے پہلے کہ ہمارا جنازہ خاموشی سے نکل جائے کیوں نہ ہم اکھٹے ہوکر ظالم ریاست کا ہر وہ سامراجی ہتھکنڈے کے خلاف مسلح مزاحمت کریں جو سادہ لوح بلوچوں کی نسل کشی کا سبب بن رہے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں