کراچی حملہ اور بلوچ قوم پر اثرات
تحریر: عائشہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کراچی یونیورسٹی میں چائنیز پر حملے کے بعد سوشل میڈیا پر بہت سی باتیں دیکھنے اور سننے کو مل رہی ہیں جو کہ دونوں مثبت بھی اور منفی بھی ،مثبت انکے لئے جو پہاڑوں پر بیٹھ کر بلوچ کی آزادی کیلئے اپنی جوانی ،گھر ،بچے،بیوی سب چھوڑ کر صرف اس ایک مقصد آزادی کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے اپنے سر پر کفن باندھ کر اس کٹھن راہ کو اپنائے ہوئے ہیں-
نہ جانے کس موڑ پر زندگی کو الوداع کہنا پڑے یہ راستہ موت ہے مزاحمت ہے،اب آتے ہیں انکی طرف جو اس حملے کو منفی الفاظ دے کر کبھی گودی وطن شاری کو ایک ذہنی مریض قرار دے کر لوگوں کے دل میں مزاحمت نہ کرنے کا خوف پیدا کرتے ہیں اور اسے ایک غیر انسانی اور غیر تہذیبی عمل قرار دیتے ہیں ،کہاں ہیں وہ انسانیت کے بین الاقوامی علمبردار جو بلوچستان میں آئے روز ان انسانیت سوز اعمال ،جبری گمشدگیوں ،مسخ شدہ لاشوں اور بلوچ نسل کشی کے خلاف خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں وہ بین الاقوامی ادارے جو انسانی حقوق کی چیمپئن ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں-
بلوچ اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہا ہے جو خون مانگتی ہے نسلوں کی یہ جنگ اب ایک نئے دور میں گودی شاری کی قربانی کی وجہ سے داخل ہو چکی ہے،گودی شاری جو دو بچوں کی ماں تھی ایک خوشحال زندگی بسر کر رہی تھی لیکن وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ عورت بھی تھی اور اس سے بڑھ کر وہ بی ایس او آزاد کی پیداوار تھی جہاں اسکے شعور نے اسے اس فیصلے پہ مجبور کیا،اسے مجھے بابائے بلوچستان بابا خیر بخش مری کی وہ بات یاد آئی جسے پڑھ کر میری آنکھیں بھر آئیں، وہ اپنے انٹرویو میں کہتے ہیں کہ میں مائوزے دنگ جو مشہور جمہوری اور انقلابی لیڈر مانے جاتے ہیں- تو بابا مری ان سے ملنے چائنا جاتے ہیں کیونکہ انکی کارکردگی اور لیڈرشپ سے بہت متاثر ہوتے ہیں کہ ان سے مل کر وہ بھی انقلاب اور جمہوریت کا درس لیں تاکہ جس اذیت اور ظلم سے مائو نے اپنی قوم کو نکال کر اسے آزاد اور خوشحال زندگی دی تو انکے انتظار میں بابا بیٹھے ہوتے ہیں انکو خاص یہ بولنے کیلئے انکی پرسنل سیکٹری آتی ہےکہ مائو کو “ قومی سوال کرنا پسند نہیں “ آپ ان سے اس حوالے سے کوئی سوال کرنے سے گریز کر کیجئے گا چائنا جو آج ایک سپر پاور ریاست ہونے کا دعوی کرتی ہے جس ظلم اور کرب سے وہ گزرے ہیں اسی طریقہ کو اپنا کر وہ دنیا خاص طور بلوچستان پہ راج کرنا چاہتے ہیں ،میں ایک ایکسیٹریمسٹ ہو کہ یہ بات نہیں کہہ رہی یہ بات تاریخ کہتی ہے کہ مظلوم کا ساتھ کوئی نہیں دیتا مظلوم و محکوم قوم اپنے لئے خود لڑتے ہیں –
وقت کے ساتھ ساتھ انسان کی تہذیب میں بہت زیادہ تبدیلیاں آتی ہیں بالکل اسی طرح جنگوں میں بھی جنگجو دشمن کو شکست دینے کیلئے اپنا طریقہ بدلتے ہیں بالکل اسی طرح مجید بریگیڈ بھی ایک انوکھی ونگ ہے بی ایل اے کی جس میں بلوچ سرمچار رضاکارانہ طور پر اپنا نام دے کر مشن پر جاتے ہیں اپنی جان دے کر اس مشن کو کامیاب کرتے ہیں کیونکہ یہ راستہ جنگ کا ہے اور جنگ میں موت کے سوا کچھ نہیں اور یہ وہ موت ہے جو بلوچ آزادی پسند اپنے لئے خود چنتے ہیں-
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں