مولانا، نیشنلزم اور بلوچستان
تحریر: یوسف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان کے نوجوانوں کو خواہ کتنا ہی شعور یافتہ کہیں،سیاسی پختگی کے منڈیلا کہیں، مزاحمت کے مہاتما گاندھی سمجھیں لیکن آپ اُنہیں نیشنلزم کی چار صفات کی بیانات دینے والے سیاستدانوں سے اثر انداز ہوتے نہیں بچا سکیں گے۔
مولانا کو آپ جتنا جماعتِ اسلامی کا بیانیہ پھیلانے والا کہیں۔ جمیعتِ طلبا کی بلوچ طلبہ کے ساتھ تاریخ کے پنّوں کو لپیٹ کر جتنا پیش کریں مولانا کو نیشنلزم سے دور نہ رکھ پائیں گے۔
گوادر دھرنے کے حمایتی،نیشنلزم کے چار صفحاتی نیشنلزم کے سامنے ایسے ڈھیر ہوئے جیسے شیر سے لومڑی۔ سیاسی سرکلوں،ٹوئیٹر اسپیس سے بیانات تک منجھے ہوئے نوجوان طبقہ تنقید کی بُول رہا تھا۔ بیک ڈور کا سپاہی کہہ رہا تھا اور بلوچستان میں مولانا کو کہاں سے کہاں پہنچا رہا تھا۔
اب جب عملی میدان میں سائنس و ٹیکنالوجی کی دوڑ میں مولانا کو شریک نہ پائے۔ بلوچ مزاحمت کے چار صفحات کے قوم پرستوں کو شریک نہ دیکھ سکے۔ بھلے ہی ہوشاپ ان سے بیس کلومیٹر دور ہو۔ مولانا سے دو سو کلومیٹر دور لیکن مولانا کو دکھ پائے۔ آپ کی ننگ و ناموس جسے بہن کہیں،ماں کہیں،بلوچ عورت کہیں کی بات آئی تو پھر مولانا ہدایت الرحمن کا دھن بجنے لگا۔
زین عباس کہتے تھے
زر کا اعجاز جو دیکھا تو معلوم ہوا
کیسے اس قوم کے سردار بدل جاتے ہیں
جب بات بلوچ کی آئی پارلیمان کے نمائندے بیس صحیح میدان میں زیرو برابر۔۔۔
ہماری ایک عادت ہے۔ ہم دیکھتے کم اور بولتے بہت ہیں۔ مشاہدے میں چار الفاظ بیٹھک میں بیس الفاظ کے وزن برابر۔۔۔
بلوچستان کی بیٹیاں بھلے وہ گھریلو خاتون ہوں۔شاعر ہوں یا فنکار لاپتہ ہوتے ہوئے کسی کی گرفت انہیں محفوظ نہیں رکھ پائے جب تک زبان خاموش ہوں۔ مزاحمت میں دم نہ ہو۔
اب المیہ یہ ہے کہ بلوچ میدان میں، نیشنلزم میدان سے ہزار کلومیٹر دور۔ بلوچ کا نیشلنزم تعارف الگ اور قوم پرستوں کی نیشلنزم لغت میں الگ۔
جس کے اتحادی تھے وہ بات نہیں سنتے تھے۔ اپوزیشن میں آکے اب جن کے اتحادی بنے بیٹھے ہیں وہ طاقتور کے سامنے بات کرتے کرتے یہ فیصلہ شاید کر چک،ے جناب اب بلوچ عورتوں کے نمبر لگا کر مردوں کی جبری گمشدگی بند کریں۔ یا پھر پیچھے سے یہ آواز کہ برخوردار دونوں ہی کرتے ہیں۔ حفیظ کو قلم نما بارود کے ساتھ اغوا کریں گے اور نورجان کو پہنی جیکٹ سے دبوچ کر دبنگ ایکشن اپنائیں گے۔ باقی بچی کچھی کام یہ ہے کہ بلوچ تعلیم یافتہ طبقے کو اٹھا کر غائب کرو یا پھر دن کو اٹھا کر شام تک بازیاب یا تیسری رات پھر اٹھاؤ پھر چھوڑو۔
درد،احساس،سوال ہی سوال ہے کی لب اب شاید نہ بول پائے پر ہمارے لبوں کے لیے کچھ کلمات ورثے میں چھوڑ کر گئے ہیں جناب زین عباس;
ڈرو سسکیوں سے
لہو سے بھری ہچکیوں سے
یہ اجڑی ہوئی جھولیوں سے
کئی بے صدا لوریوں سے
سسکتی ہوئی بے ردا بیٹیوں سے
دریدہ دہن لاپتہ شہریوں سے
زین عباس ایک درد سما کر جسمانی زندگی سے ہم سے تو جدا ہو گئے ہیں لیکن انکے کلام امر ہیں۔ خیالات اور شعر تا قیامت کسی نہ کسی انجانے ترقی پسند انسان کے دل میں جگہ کر چکے ہیں۔
زین عباس نظام کو تنبیہ کر چکا ہے کہ ڈرو سسکیوں سے۔ اب یہ مصیبت سر اٹھا چکا کہ نظام کے ملحد سسکیوں،دریدہ دہن لاپتہ شہریوں کی بُول بولنے والا سسکیوں سے دور ایک پُرسکون کرسی پر بیٹھ کے خوشحالی کا ایک سفر،شہریوں کی سسکیوں سے بھرا پڑا ہے لانے کی کوشش میں ہے جس میں خوشحالی غائب ضرور ہے البتہ خوشحالی کے پرچار بھی غائب ہیں۔
ہاں،البتہ ایک زمانے میں انہیں شہرِ اقتدار کی ترقی کے پیچھے بلوچ کے خون سونگھنے کو ملتا تھا اب یہ ناپید ہے۔ اب کی بار بلوچ کا خون مملکت کی کرسی کے نیچے عطر نما خون کی بُو لا رہا ہے۔
اب کے ایوان سے سماجی ویب سائیٹ تک سمجھوتے کے بُو سونگھنے کو مل رہا ہے۔ جسے بڑی محنت سے آل بلوچستان سمجھوتہ پرائیوٹ لمیٹڈ سے بنوایا گیا ہے۔
مزدور طبقہ کہیں،احتجاج اور مذمتی لوگ کہیں یا نیشنلزم کی بڑی کمپنی میں مزدور کا درجہ دیں وہ اب ایم ڈی کے برخلاف روڈ بلاک کرنے میں،ٹائر جلانے،ہڑتال اور سب سے بڑھ کر مزاحمت کی اشیا بنانے میں مصروفِ عمل ہیں اور حیرت یہ ہے کہ اب کی بار چیف ایگیزیکٹو کا شوکاز نوٹس ملا ہے اور نہ ہی مشاورت۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں