جبر ناروا اور مولانا ھدایت الرحمن بلوچ
تحریر: اسد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان پر جبرناروا کی ایک پوری تاریخ ہے، اس کا پس منظر سیاسی اور تسلسل 1948 سے جا ملتا ہے۔ جبر اور زیادتی کے خلاف بلوچ سیاسی مزاحمت کا بھی ایک پس منظر ہے جو آغا عبدالکریم سے شروع ہوتا تاہنوز جاری ہے۔ آپ خیر بخش مری کو جدید بلوچ سیاست(سیاسی مزاحمت) کا سرخیل کہہ سکتے ہیں جن کی فکر و نظریہ سے متاثر ہوکر بلوچستان ایک مزاحمتی سیاسی ڈھانچے میں ڈھل گیا۔
بلوچ نفسیات تشکیک، الزامات، بد اعتمادی اور معاملات سے دور رہ کر کام کرنے والوں کے خلاف بولنے کی ایک تاریخ رکھتی ہے یہ عمل 1948 میں ہوا تھا اور 2002 میں شھید چیئرمین کے ساتھ بھی دہرا گیا۔
تشکیک میں مبتلا اس قبیل کے ہاں پارسائی کا مطلب جان کی قیمت ہے جب تک آپ کو اپنے بیانیہ کی وجہ سے قتل نہیں کیا جاتا تب تک آپ جو بھی ہیں ریاستی اداروں کے آدمی ہیں۔ شہید چیئرمین کی اغوا نما گرفتاری تک بھی اس قبیل کے نزدیک پری پلان تھا لیکن مسخ شدہ شھید چیئرمین کا کلمہ بھی اسی تشکیک میں مبتلا قبیل نے ہی سب سے پہلے پڑھا۔ یہ سیاسی طور پر ناکارہ، عملی طور پر بے کار اور کردار کے لحاظ سے مشکوک قبیل سانحات کا منتظر رہتا ہے۔ یہ کسی رہبر کی شھادت کے بعد اس کے نام کا کلمہ پڑھنے میں سب سے آگے رہتا ہے۔
اس ناکارہ و بےکار اور بے عمل گروہ کے پاس کوئی مضبوط سیاسی بیانیہ نہیں یہ ہمیشہ ایک جماعت سے دوسری اور دوسری سے تیسری میں پناہ ڈھونڈتا پھرتا ہے، ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو ایک ہی جماعت سے وابستہ ہیں کیونکہ ان کی جماعت ان کے زہنی مرض سے قربت رکھتی ہے۔
2000 کی ابتداء سے بلوچستان میں سیاسی مزاحمت ایک نئے رنگ کے ساتھ نموپائی اور پورے صوبہ میں پھیل گئی، 2022 تک بلوچستان آگ میں جلتا خون میں لال ہوتا رہا اور یہ سلسلہ مستقلی کے ساتھ جاری ہے۔
آگ و خون کے اس دورانیہ میں بلوچ لاپتہ کیے گئے، بلوچ مارے گئے، بلوچ اغوا اور پھر مسخ شدہ حالت میں بازیاب ہوئے یہ تشکیک کے مرض میں مبتلا قبیل مگر کہیں نظر نہ آئی، البتہ اس کی بے جا تنقید اور اس کے دوہرے کردار کو کہیں کہیں مشاہدہ کیا گیا، اس گروہ سے عملی صورت میں کردار ادائیگی کا کہا جاتا تو وہ اپنے لیے غیر جانبدار کے خواب صورت لفظ کا استعمال کیا کرتا حالانکہ جنگ اور غیر جانبدار دو متضاد چیزیں ہیں۔
2010 کے بعد حالات ایسے بنائے گئے کہ سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد تھی، بنیادی حقوق کےلیے ریلیاں نکالی جاسکتی تھی نا کوئی اور طرح کی سیاسی سرگرمی کی اجازت تھی۔ جو بولتا وہ لاپتہ ہوتا، اس کی آواز ہمیشہ کے لیے خاموش کی جاتی۔ یہ خوف، ڈر اور خون آشام دور تھا، سیاسی جماعتیں چپ اور عام لوگ سہمے ہوئے تھے، معاشرہ بندوق بردار مسلح جھتوں کے سپرد کیا گیا تھا۔
2013 کے جنرل الیکشن میں ایک ناکام تجربہ اور 2018 کے الیکشن میں باپ نے براہ راست الیکشن لڑ کر اپنی حکومت بنائی تشکیک کے مرض میں مبتلا گروہ کہیں خاموش تو کہیں باپ کا ہمنوا بن گیا۔
2018 کے بعد ایک سانحہ ہوا ایک ایسا سانحہ جس نے بلوچ سماج پر بزور بندوق مسلط سیاسی جمود ختم، ڈر اور خوف کو دور کردیا۔ سانحہ ڈنک جس نے بلوچستان کی سماج کو ہلا کر رکھ دیا، بلوچ سرزمین کی ایک بہادر بیٹی ملک ناز نے اپنی شھادت کے ساتھ ریاست کے چہرے سے نقاب اتار دیا۔ سانحہ ڈنک ملک ناز شھید کی 3 سالہ بیٹی برمش کے نام منسوب ایسا ہوا کہ برمش نے بلوچستان کی پوری سیاست کا رخ ہی تبدیل کردیا آج ہر جگہ برمش ہے ہر محلے ہر محاز اور ہر دلوں میں برمش ہے۔
سانحہ ڈنک میں اپنی جان دے کر ملک ناز نے ڈر اور خوف کی گھٹن زدہ فضا سے سیاسی ماحول کو دوبارہ جنمایا، اب بلوچستان ایک بار پھر شھید چیئرمین کے فلسفہ پر کاربند تھا۔ احتجاج، ریلیاں، جلسے، جلوس اور شعور کا ایک نیا دور شروع ہوا، کینیڈا کی یخ سردی میں مادر وطن بانک کی شھادت سیاسی جمود پر گویا ایک سنگ میل تھا جسے بلوچ سماج نے بالآخر عبور کرلیا۔
نوجوان بے دریغ جبر کے خلاف سیاسی مزاحمت کا حصہ بننے لگے، دباؤ اور تشدد کے باوجود جلسے جلوس اور ریلیاں ہوتی گئیں۔ اسی جبر کے مارے سیاسی ماحول میں 2020 کے آخر میں مولانا کا ظہور ہوا، ایک تند و تیز آواز، بلوچستان کی آواز، بلوچ کی آواز سربندن کا ماہیگیر مولانا ھدایت الرحمن بلوچ۔
مولانا ھدایت الرحمن بلوچ کا ظہور یونہی حادثاتی نہیں بلکہ ملک ناز اور شھید بانک کی شھادت کے بعد سیاسی بیداری کا نتیجہ تھا۔
مولانا اسی سرزمین سے ہے لامحالہ ایک عام نوجوان کی طرح وہ بھی ان اندوہناک واقعات کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتا تھا سو وہ گھٹن زدہ فرسودہ سیاسی سٹ اپ کو چیلنج کرتے ہوئے یوں نمودار ہوا کہ مسلط کیا گیا بے حس سیاست ہل کر رہ گئی، مولانا نے عوام کو منظم کرنا شروع کردیا، اس نے گوادر سے تاریخی ریلیاں نکال کر نہ صرف مقتدرہ بلکہ ان کے پیرول پر کام کرنے والی سیاست کے نام پر مسلط گروہوں کےلیے بقا کا مسلہ پیدا کردیا۔
وہی سیاسی جماعتیں جو عوام، عوام کے مسائل، سرزمین کے دکھ درد، وسائل کی لوٹ مار سے یکسر لاتعلق مقتدرہ کے ساتھ ساز باز، گٹھ جوڈ اور یاری کرکے باری باری الیکشن جیت کر اقتدار کے مزے لینے کی لت میں مبتلا تھے۔مولانا ھدایت الرحمن کی گونج دار آواز ان کے لیے تازیانہ سے کم نہ تھا۔
انہی سیاسی مداریوں کی سالا سال سیاست اور اقتدار کے باوجود گوادر پیاسا رہا، تربت 54 سینٹی گریڈ کی ریکارڈ گرمی میں بجلی جیسی بنیادی سہولت سے محروم رہی، کیا پنجگور کیا لسبیلہ، کیا آواران کیا خضدار غرض پورا بلوچستان سیاست کے ان کھلاڑیوں کی وجہ سے پسماندگی، جہالت، غربت کا شکار صحت و تعلیم کی بنیادی ضروریات سے بے بہر اور ان کی وجہ سے اپنی معدنیات اور ساحل وسائل سے بھی محروم کیا گیا۔ یہ خاموش رہے یہ چپ اور گنگ بنے کہ کہیں مقتدرہ ناراض نہ ہوجائے کہیں وہ اقتدار میں اپنی باری سے محروم نہ کیے جائیں۔
انہی سیاسی مداریوں نے چاغی میں ایٹمی دہماکہ کیے بلوچستان کو کینسر زدہ کردیا اور پھر اپنے عمل سے لاتعلقی برتی، بلوچ ساحل کا سودا کیے، معاہدات پر دستخط لگائے اور پھر انکار کیا۔
انہی کی موجودگی میں گلی گلی، محلے محلے حتی کہ لوگوں کے گھروں، اسکولوں اور ہسپتالوں کی چھتوں پر چیک پوسٹ اور چوکیاں بنائی گئیں، بلوچ پیر و جوان عورت اور بچوں کی تزلیل ہوتی رہی مگر انہیں سانپ سونگھ گیا یہ مہر بہ لب رہے اور اگلے انتخابات میں اپنی باری کا انتظار کرتے رہے۔
مولانا ہدایت الرحمن بلوچ نے مقتدرہ کو نہیں بلکہ دراصل انہی بے حس سیاست کاروں کو چیلنج کیا تبھی جب پاؤں ان کے دم پر آئی تو یہ پکار اٹھے۔ چیخنے لگے، الزام تراشیاں شروع کیں۔
مولانا ہدایت الرحمن بلوچ کو ایجنٹ، آلہ کار، پیرول زدہ اداروں کا آدمی اور پتہ نہیں کیا کیا کہا گیا اور کہا جارہا ہے۔
مولانا ہدایت الرحمن بلوچ نے کیا کہا صرف یہ کہ بلوچ کی تزلیل پر آواز اٹھائی، جبر کے خلاف لوگوں کو منظم کیا، تشدد کو چیلنج کیا، سرکاری اور سرکاری حمایت یافتہ بندوق برداروں کی زیادتیوں کے خلاف بلوچی ادا سے للکار بلند کی، بلوچیت کا پاس کیا، بلوچ مزاحمت کی روایات کو زندہ رکھا۔
مولانا جب اور جہاں جاتے ہیں جس کسی چیک پوسٹ اور چوکی پر بلوچ تزلیل کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں تو ان کے ساتھی ویڈیو بناکر سوشل میڈیا پر ڈال دیتے ہیں، منٹوں میں یہ ویڈیو وائرل ہوتی گھنٹوں میں لاکھوں لوگوں تک پہنچ جاتی ہے۔
تشکیک زدہ گروہ یہ دیکھ کر جل جاتی ہے، کچھ نہیں سوجھتا تو الزام تراشتی ہےکہ یہ پری پلان تھا، مولانا کو فوجیوں سے تلخ لہجہ اختیار کرتے آخر گولی کیوں ماری نہیں گئی، یہ بے عمل گروہ پروپیگنڈہ کرتی ہے کہ مولانا کو آخر گرفتار، اغوا یا قتل کیوں نہیں کیا جاتا اور پھر خود کو تسلی دے کر کہتے ہیں کہ مولانا ایجنٹ اور مولانا اپنا ہے اس لیے ان پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا۔
اصل میں یہ گروہ جو مختلف حصوں میں بٹی ہوئی ہے مقتدرہ کے پیرول کا اتنا عادی ہے کہ ان کے نزدیک ہر آواز اٹھانے والے پر قتل واجب ہے جو آواز اٹھاکر زندہ ہے وہ ایجنٹ ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ریاستی جبر کے ساتھ ساتھ مولانا ہدایت الرحمن بلوچ انہی گروہوں کی سیاسی بقا کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں، مولانا الیکشن جیتیں یا ہاریں یہ بلوچ کا دردسر نہیں اور نہ ایسا امکان ہے کہ سالوں کے وفاداروں کو ایک عام ماہیگیر کے مقابلے میں شکست دینے دیا جائے۔ مگر مولانا ہدایت الرحمن بلوچ اس وقت کی سرفیس سیاست میں بلوچ اور بلوچستان کی توانا آواز ہیں ان پر الزام لگانا چاہیں لگادیں لیکن بلوچ بائیس سالہ تلخ تجربات کے بعد اس قابل ہے کہ سوداگروں کو پہچان سکے، جب کبھی بلوچ کو احساس ہوا کہ مولانا ایجنٹ ہے مولانا بکا ہوا ہے مولانا پیرول زدہ ہے تو وہ اپنا فیصلہ کرتے دیر نہیں لگاتی بلکہ مولانا کیا ان سے بڑوں کو بھی آسمان سے پاتال میں پھینکتی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں