گذشتہ روز بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے ہوشاپ سے جبری طور پر لاپتہ کیے گئے خاتون نور جہان کو آج تربت میں انسداد دہشتگردی کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں خاتون نے اپنے اوپر لگائے گئے تمام الزامات مسترد کردیے۔
دوسری جانب خاتون کی جبری گمشدگی کے بعد سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ آج دوسرے روز بھی سی پیک روٹ پر خواتین و بچوں سمیت علاقہ مکینوں کا دھرنا جاری رہا۔
گذشتہ روز ہوشاپ میں احتجاج کا سلسلہ اس وقت شروع جب یہ خبر سامنے آئی کہ ایک خاتون کو رات گئے فورسز و سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے اس دوران سماجی رابطوں کی سائٹ پر بھی سیاسی و سماجی حلقوں کی جانب سے واقعے کیخلاف غم و غصے کا اظہار کیا گیا اور واقعے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
بعد ازاں سی ٹی ڈی کیجانب سے ایک مبینہ خاتون خودکش بمبار کو گرفتار کرنے کا دعویٰ سامنے آیا، جبکہ آج خاتون کیخلاف ایف آئی آر دیکھنے میں آئی۔
خاتون نورجان کو سی ٹی ڈی تربت نے منگل کے روز ایک اور شخص کے ہمراہ جس کا نام ایف آئی آر میں فضل ولد علی محمد درج کیا گیا ہے، انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے سامنے پیش کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ خاتون سے خودکش جیکٹ بمعہ 8.7 کلو بارودی مواد، تخریبی سرگرمیوں کے لیے دیگر آلات سمیت ہوشاپ میں خواتین اہلکاروں کے ہمراہ قابو پاکر گرفتار کرلیا گیا۔
سی ٹی ڈی نے الزام لگایا کہ خاتون کو خودکش جیکٹ پہنتے ہوئے قابو کیا گیا جس کا مقصد سی پیک پر گزرنے والی چینی اہلکاروں کے قافلے پر خود کش حملہ کرنا تھا، سی ٹی ڈی نے یہ الزام بھی لگایا کہ خاتون تعلق بی ایل اے کی مجید بریگیڈ سے ہے اس کے ساتھ فضل نامی شخص کو بھی عدالت میں پیش کرکے کہا گیا یہ خاتون کے ساتھ اسلحہ سمیت گرفتار کیا گیا ہے۔
مبینہ خودکُش بمبار ہونے کے الزامات کا سامنا کرنے والی بلوچ خاتون نورجہاں نے منگل کو تربت میں انسداد دہشتگردی کی عدالت میں سماعت کے دوران اپنے خلاف لگائے گئے تمام الزامات مسترد کردیے۔ اُنکے وکیل ناظم الدین ایڈوکیٹ نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ انکے موکل پر دوران تفتیش تشدد کیا گیا ہے۔
تاہم خاتون اور اُنکے قونصلر نے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی جنسی زیادتی کی خبروں کی سختی سے تردید کی۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سی ٹی ڈی کو حکم دیا کہ خاتون کو اس کے خاندان اور قونصلر تک رسائی فراہم کی جائے اور اسے تھانہ CTD میں رکھا جائے۔ سماعت دو دن کیلیے ملتوی کر دی گئی ہے۔
ایک سنیئر وکیل نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ عدالت نے دو دنوں کے اندر رپورٹ مرتب کرکے خاتون کو دوبارہ عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے حکم دیا کہ انہیں سی ٹی ڈی تھانہ میں رکھا جائے اور اسے قریبی رشتہ داروں سے ملنے کی اجازت بھی دی جائے۔
دوسری جانب دی بلوچستان پوسٹ کی جانب سے ضلع انتظامیہ کا موقف جاننے کے لئے ضلع انتطامیہ کے ذمہ دار حسین جان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تاہم انکا فون نمبر متواتر بند آتا رہا جبکہ وٹس ایپ پہ مسیجز موصول ہونے کے باوجود انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا ۔
گرفتار خاتون نورجان فضل کے شوہر فضل بلوچ نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں پاکستانی فورسز کی طرف سے لگائے تمام الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ نورجان پر لگائے گئے تمام الزامات بے بنیاد ہیں۔
واقعے پر بلوچ نیشنل موومنٹ نے سماجی رابطوں کی سائٹ پر ایک ہنگامی پریس کانفرنس کی۔ جس میں کہا گیا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیاں کسی خاص واقعے کا ردعمل نہیں اور نہ ہی صرف ان افراد کو نشانہ بنایا جاتا ہے جن کا تعلق کسی مسلح مزاحمتی تنظیم سے ہے، جیسا کہ پاکستان کے نام نہاد سیکورٹی ادارے میڈیا اور دنیا کو دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ نورجان کو سی ٹی ڈی اہلکاروں نے گرفتار کیا ہے، اس پر بھی یہ جھوٹا الزام لگایا گیا ہے کہ ان کا تعلق ایک مسلح تنظیم سے ہے اور وہ خودکش بمبار ہیں۔ جبکہ ان کے ساتھ گرفتار کی گئی چودہ سالہ لڑکی شازیہ بنت اللہ داد کو جبری گمشدہ کیا اور اس کے بارے میں یہ بھی نہیں بتایا گیا ہے کہ انھیں جرم میں گرفتار کیا گیا ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ بلوچ خواتین کی جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس سے پہلے بھی تربت، آواران، پنجگور، گچک اور دیگر علاقوں میں خواتین کے جبری گمشدگی کے واقعات کے رونماء ہوچکے ہیں۔
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے ترجمان نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاست تسلسل کے ساتھ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی کرتے ہوئے سنگین جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے۔کبھی نہتے بلوچ عوام پر گولیاں برسائی جا رہی ہیں تو کبھی انھیں جبری گمشدگی کا شکار بناتے ہوئے زندانوں کے نظر کیا جا رہا ہے۔ریاست بلوچستان میں اپنی قبضہ گیریت کو طول بخشنے اور استحصال کو برقرار رکھنے کےلیے تشدد کو بروئے کار لا رہا ہے۔ جبکہ گزشتہ چند عرصے تشدد کی اس لہر میں مسلسل تیزی دیکھی جا رہی ہے جو کہ نہایت ہی تشویشناک ہے۔
انہوں نے مزید کہا گزشتہ چند ہفتوں میں ریاستی فورسز نے بلوچستان سمیت پاکستان کے دیگر شہروں سے درجنوں بلوچ نوجوانوں کو جبری گمشدگی کا شکار بناتے ہوئے انہیں ٹارچر سیلوں کے نظر کر دیا۔ جبری گمشدگیوں کا یہ سلسلہ بلوچ نسل کشی کا ہی تسلسل ہے جس پر ریاست دہائیوں سے عمل پیرا ہے۔ نسل کشی کا یہ سلسلہ کبھی جبری گمشدگیوں کی شکل میں بروئے کار لایا جاتا ہے تو کبھی عام عوام کو اندھی گولیوں کا شکار بنایا جاتا ہے اور کہیں پانی جیسی سہولیات میسر نہ کرتے ہوئے مختلف امراض کی شکل میں ہزاروں انسانوں کو لقمہ اجل بنایا جاتا ہے۔