بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں ڈی بلوچ کے مقام پر گوادر اور کراچی جانے والا شاہراہ پر دھرنا تیسرے روز بھی جاری رہا جس کے سبب کیچ کا کراچی اور گوادر سے زمینی رابطہ منقطع ہوگیا ہے اور کئی مسافر اور مال بردار گاڑیاں پھنس گئیں –
دھرنے میں حق دو تحریک، سول سوسائٹی کے علاوہ خواتین، طلباء اور طالبات بھی شریک ہیں اور لوگوں کی اظہار یکجہتی کے طور پر آمد کا سلسلہ جاری ہے –
دریں اثناء آج شہر میں مکمل شٹرڈاؤن ہڑتال بھی رہا اور تمام کاروباری مراکز بند رہے –
دھرنے کے مقام سے حق دو تحریک کے ترجمان صادق فتح زامرانی نے کہا کہ کل شہر میں کوئی ہڑتال نہیں ہوگا اگر کل تک نور جان کی رہائی عمل میں نہیں لایا گیا تو شام کو نور جان کی لواحقین اور تمام سیاسی پارٹیوں سے ملکر آئندہ کا لائحہ عمل طے کریں گے –
حق دو تحریک کے رہنماؤں نے دھرنا شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حبببہ پیر جان کی بازیابی خوش آئند ہے لیکن نور جان کی رہائی تک یہاں احتجاج جاری رہے گا –
انہوں نے سرکار کی طرف سے نور جان پر لگائے گئے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ خودکش جیکٹ، بارود، ہینڈگرینڈ اور دس کلاشنکوف تو دور کی بات اگر نور جان ایک ہاتھ میں ایک کلاشنکوف ہوتی تو وہ تمھارا مقابلہ کرتی کیونکہ ایک بلوچ بزدل نہیں ہوتی –
انکا کہنا تھا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ریاست کا بیانیہ جھوٹ پر مبنی ہے اور خوف کا ماحول بنانے کی کوشش ہے –
انکا کہنا تھا کہ جب یہاں اس طرح کا ظلم اور جبر ہوگا تو شاری پیدا ہونگے جو جسم پر بم بند کر پھٹ جاتے ہیں –
منتظمین نے کہا کہ دھرنے کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے لیکن عوام باشعور اور منظم ہے –