بعد از شاری – حکیم بلوچ

983

بعد از شاری

تحریر: حکیم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

چھبیس اپریل دوہزار بائیس کو بلوچستان اور بلوچوں کی تاریخ میں ایک ایسا منفرد اور ناقابل یقین عمل ہوا، جو اس سے قبل نہ کسی نے سوچا ہوگا اور نہ ہی وہ اس عمل کیلئے تیار ہوا ہوگا۔ بلوچستان میں منفرد اور ناقابل یقین واقعات ہمیشہ سے رونما ہوتے آئے ہیں، کیونکہ بلوچستان ایک مقبوضہ سرزمین ہے اور مقبوضہ سرزمین کے باشندے کسی بھی حد تک جاکر اپنی سرزمین کا دفاع اور اس سے محبت کا اظہار کرسکتے ہیں۔ جس کی ایک واضح مثال چھبیس اپریل دو ھزار بائیس کو بلوچ سرزمین سے تعلق رکھنے والی شاری بلوچ کا فدائی حملہ تھا۔ اس حملے میں کم از کم چار افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ حملے کا ہدف کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کا عملہ تھا، حملے کی زمہ داری قبول کرتے ہوئے بی ایل اے نے اسے کامیاب حملہ قرار دیتے ہوئے چین کو ایک مرتبہ پھر خبردار کرتے ہوئے کہا کہ وہ بلوچستان میں جاری اپنی تمام تر پراجیکٹس ترک کرتے ہوئے پاکستانی فوج کی کمک بند کریں، وگرنہ دیگر حملوں کا سامنا کرنے کو تیار رہیں۔

چھبیس اپریل کے واقعے کے بعد چین نے پاکستان بھر سے کنفیوشس انسٹیٹیوٹ سے وابسطہ تمام عملے کو واپس چین روانہ کرواکر کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کی سرگرمیوں کو معطل کردیا ہے۔ یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ چین نے کسی واقعے کے بعد اُس علاقے سے اپنا عملہ نکال کر واپس چین بلایا ہو۔ چین کا اپنے عملے کو واپس کو بلانا، اور پاکستان سے یہ کہنا کہ انہیں یہ اختیار دیے جائیں کہ وہ بلوچ مزاحمت کاروں کو جو چینی تنصیبات اور چینی عملے کو نشانہ بنارہے ہیں سے ان سے نمٹ سکیں۔

اس سے قبل بھی چینی تنصیبات، چینی انجینئرز پر اکثر بلوچ سرمچار حملہ آور ہوتے رہے ہیں، اور یہ حملہ بھی مجید برگیڈ کا پہلا فدائی حملہ نہیں تھا، اس سے قبل بھی بی ایل اَے کے مجید برگیڈ نے چینی انجینئرز پر دالبندین میں، کراچی میں چینی کانسلیٹ پر، کراچی اسٹاک ایکسچینج، گوادر پی سی ہوٹل، گوادر میں ہی چینی انجینئرز پر ایک فدائی حملہ گزشتہ سال اور رواں سال چھبیس اگست کو کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کے عملہ پر کراچی یونیورسٹی کے سامنے حملہ کیا۔

لیکن اس حملے میں جو سب بھی منفرد اور ناقابل یقین عنصر تھا، وہ حملہ آور خود تھیں، کیونکہ بلوچ قوم، پاکستان اور چین سمیت دنیا بھر میں کسی کو یہ امکان تک نہیں تھا کہ ایک بلوچ خاتون بھی اس انتہا تک پہنچ سکتی ہے کہ وہ فدائی حملہ جیسا انتہائی سنگین عمل کرسکیں۔

جب چھبیس اپریل کا واقعہ رونما ہوا تو اس نے بہت سارے سوالات جنم دیے سب نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ یہ حملہ آور خاتون کون تھیں اور کیونکر انہوں نے اس قدر سنگین قدم اٹھایا، شاری بلوچ کے ذہنی حالت پر سوال اٹھائے گئے، شاری بلوچ کے علمی و شعوری ذہانت پر سوالات اٹھائے گئے، شاری بلوچ کے شریک حیات ڈاکٹر ھیبتان پر شاری بلوچ کو اس قدر سنگین اقدام اٹھانے پر اکسانے کے الزامات لگائے گئے۔ سوشل میڈیا اور پاکستانی میڈیا مسئلے کے سنگینی کو سمجھنے اس پر گفتگو کرنے بجائے صرف قیاس آرائیاں ہی میڈیا پر دکھائی دینے لگی۔ لیکن شاری بلوچ کی ذہنی حالت، انکے شعور و علمی ذہانت یہاں تک کہ انکے شوہر کا اس پورے مدت میں شاری بلوچ کے فیصلے پر انکی حمایت کے علاوہ کسی بھی طرح سے انکا شاری کو اثر انداز کرنے یا انہیں برین واش کرنے جیسا کوئی بھی عمل سامنے نہیں آیا۔

شاری جنکے ننھے بچے ہیں ایک بیٹی اور ایک بیٹا، شاری جنکا ایک خوشحال گھرانہ تھا، شاری کے والد بھائی اور خاندان کے دیگر افراد تمام اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ ہیں ٹھیک اسی طرح شاری بذات خود بھی دو ماسٹرز ہولڈرز تھیں اور انکی خواہش تھی کہ وہ ایم فِل کریں، اس کے ساتھ ساتھ شاری کے شوہر ڈاکٹر ہیں اور وہ بھی ایک تعلیم یافتہ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ شاری کے حوالے سے جو قیاس آرائیاں اور الزامات پاکستانی میڈیا، فوج اور انکے حواریوں کی جانب سے لگائے گئے وہ یقیناً بےمعنی تھیں اور رہینگی کیونکہ پاکستانی ریاست کا ایک بہت بڑا سیکیورٹی فیلیر اور بی ایل اَے مجید برگیڈ کا ایک کامیاب آپریشن یا حملہ شاری بلوچ نے نہ صرف مکمل کیا بلکہ اس حملے کے بعد چین کو مجبوراً اپنا عملہ واپس بھی بلانے پڑا۔

دوسری جانب ایک ایسا طبقہ بھی سوشل میڈیا پر ہے جو چاہتا ہے کہ وہ ہر ایک معاملے پر اپنا مختلف موقف سامنے لاکر خود کو اعتدال پسند ثابت کرکے بقول انکے جو قدامت پسند ہیں ان کے نقطہ نگاہ سے الگ ایک نقطہ نظر پیش کرسکیں ایسا ہی کچھ شاری بلوچ کے معاملے کے بعد سوشل میڈیا پر ہوا، شاری بلوچ کو ذہنی طور پر غیر مستحکم کہا گیا، کہا گیا کہ انہیں برین واش کیا گیا ہے، ریاست کی جانب سے گزشتہ کافی عرصے سے جاری اجتماعی سزا جس میں خواتین اور بچے بھی نشانہ بنتے آرہے ہیں ان جرائم کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کی گئی۔

دوسری جانب ایک کثیر تعداد جو یہ سمجھتے ہیں کہ شاری بلوچ نے جو اقدام اٹھایا، جس سنگین راستے کا انتخاب کیا، جس طرح سے انہوں نے اپنی زندگی کو اپنے مقصد، نظریہ اور قومی آزادی کی جدوجہد کی خاطر قربان کیا انکے اور جو خود کو اعتدال پسند سمجھتے ہیں ایک بحث تاحال جاری ہے۔

اس تمام دورانیے میں بلوچوں کے پاس سیاسی اور صحافتی حوالے سے اپنا بیانیہ دنیا کے سامنے رکھنے اور دنیا تک اپنی آواز پہنچانے والے جو ایک آدھ توانا آواز موجود ہیں انہوں نے اپنے طور پر کہانی کو کور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اسے عالمی میڈیا تک پہنچایا البتہ ان کہانیوں میں سو فیصد اس موقف کا ہونا یا نہ ہونا جو ہم سُننا چاہتے ہیں وہ ایک الگ بحث ہے جس میں صحافتی حد و حدود کا تعین کرتے ہوئے کہانی لکھنا ہوتا ہے۔

البتہ کراچی یونیورسٹی حملے سے لیکر اب تک لوگ شاری کے حوالے سے قیاس آرائیاں کرتے نظر آرہے ہیں جیسا کہ گزشتہ دنوں بلوچ صحافی کئیا بلوچ نے شاری کے ایک دوست کے ساتھ کی گئی گفتگو کو تھریڈ کی صورت میں شائع کیا تھا جس میں ایک مرتبہ پھر شاری کے سنگین انتخاب کا مورد الزام ڈاکٹر ھیبتان کو ٹہرایا گیا۔ کیونکہ بقول اس تھریڈ کے شاری نے اپنے دوست سے اس حوالے سے کبھی کوئی گفتگو نہیں کی تھی۔ یہاں صحافتی حوالے سے یقیناً ایک کمزوری جو دیکھنے میں آئی وہ یہ تھی کہ شاری بلوچ کے حوالے تھریڈ میں انکے شوہر پر الزامات لگائے گئے لیکن شاری بلوچ کے ویڈیو اور آڈیو پیغامات سمیت بہت سے ایسے حقائق جو شاری کے فیصلے کو کسی بھی مجبوری، برین واش کرنے یا کسی کے اکسانے جیسے الزامات کی نفی کرتا نظر آتا ہے شامل نہیں کیا گیا اور یک طرفہ بات رکھی گئی۔ بعدازاں کئیا بلوچ نے اپنے اُس تھریڈ پر ایک اور تھریڈ شائع کی جس میں بی ایل اے کے ایک کمانڈر کا شاری کے حوالے سے موقف بھی شامل کیا گیا تھا۔کئیا بلوچ کے تھریڈ پر تنقید کرنا یا یہ سمجھنا کہ تھریڈ نامکمل معلومات پر مبنی تھی تو اُن سے دلیل اور منطق کے ساتھ بحث کرنا کوئی غلط بات نہیں البتہ کسی کی تذلیل کرنا غیر مناسب الفاظ استعمال کرنا کسی بھی طور پر بلوچ قومی تحریک کیلئے فائدہ مند نہیں۔

شاری بلوچ کا عمل، شاری بلوچ کی نظریاتی پختگی، شاری بلوچ کی رازداری، شاری بلوچ کا اپنے عمل و نظریہ سے اس انتہا کی حد تک وابستگی کہ انہوں نے اپنے ننھے بچوں، اپنی خوشحال زندگی اور گھرانے کی پرواہ کئے بغیر جو عمل کیا ہے۔ کیا ہم سمجھتے ہیں کہ وہ عمل کسی ٹوئیٹ، رپورٹ یا کسی کے مذمت اور اس عمل کی مخالفت سے اس میں کمی یا بیشی آ سکے گی۔ شاری کا جو عمل تھا شاری نے جس راستے کا انتخاب کیا وہ عمل، وہ راستہ وہ بلوچ قوم کے دلوں اور یاداشتوں میں گھر کر چکی ہے۔ آج شاری کا ذکر کیے بغیر بلوچوں کی تاریخ نامکمل ہے۔ آج شاری کے بغیر بلوچوں کی کہانیاں نا مکمل ہیں۔ الغرض آج شاری کے کردار یا انکے عمل کو کسی بھی قسم کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔

البتہ اس بات کی وضاحت یہاں انتہائی ضروری ہے کہ جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ بلوچ خواتین پر ریاستی ظلم و جبر شاری بلوچ کے فدائی حملے کے بعد ریاستی ردعمل ہے۔ تو وہ تجزیہ نگار، صحافی، جہدکار، انسانی حقوق کے چیمپین، فیمینیسٹ اور کسی بھی طبقہ سے تعلق رکھنے والا شخص ہو وہ یا تو بلوچستان میں ہورہے ظلم و جبر کی تاریخ سے نابلد ہیں یا وہ جانے یا انجانے میں ریاستی بیانیہ کو پروان چڑھا کر اس جھوٹ کے پلندہ کو ثابت کرنا چارہے ہیں۔ جسے ریاست ہمیشہ سے ہی ایک شیلڈ کے طور پر اجتماعی سزا کے واقعات کے وقت پر استعمال کرتی آرہی ہے۔

وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ کسی بھی بلوچ خاتون کو تاریخ میں پہلی مرتبہ چھبیس اپریل دو ھزار بائیس کے بعد لاپتہ کیا گیا ہے، تو انکے علم میں حرف آخر میں اضافہ کرتا چلوں کہ شاری بلوچ کے حملے سے ایک روز قبل پچیس اپریل دو ھزار بائیس کو پاکستانی فوج نے شاہ بی بی بنت سھراب اور شہزادی بنت عبدالرحمان کو گِچگ پنجگور سے گھر کے دیگر افراد کے ہمراہ جبری گمشدگی کا شکار بنایا تھا جو تاحال لاپتہ ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں