ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ آف لسبیلہ یونیورسٹی اور کرپشن
تحریر: گوھر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اگر ہم بلوچستان کی تعلیم کی بات کریں تو بلوچستان کے مختلف شہروں سے بلوچ طلباء و طالبات ہر سال پاکستان کے مختلف شہروں زیادہ تر دوسرے صوبوں کا رخ کرتے ہیں، کیونکہ بلوچستان میں ایک تو تعلیمی اداروں کی کمی ہے اور جو ایک یونیورسٹی ہیں ان میں سہولت نہیں ہیں، جس سے بلوچ تعلیم حاصل کر سکے۔
UNICEF کے ایک ریپورٹ کے مطابق بلوچستان میں %60 سے %70 اسٹوڈنٹس اسکول سے باہر ہیں %20 پرائمری اسکول میں ڈراپ آوٹ ہوتے ہیں، باقی اسکول نہ ہونے کی وجہ سے سہولت نہ ہونے کی وجہ سے اپنی مدد آپ ٹھوکریں کھاکر صرف %1 سے کم اسٹوڈنٹس یونیورسٹی تک پہنچ جاتے ہیں۔ وہ بلوچستان کے خوش نصیب اسٹوڈنٹس میں شامل ہوتے ہیں ان کا والدین اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر ان کا خرچہ اٹھاتے ہیں تاکہ ان کے بیٹے اور بیٹیاں پڑھ لکھ کر مسقبل میں ایک اچھے انسان بنیں اور ساتھ ساتھ اپنے اور اپنے آنے والے نسلوں کےلیے شعور کو اجاگر کریں۔ لیکن یہاں یونیورسٹیوں میں شعور دینے کے بجاے نوآبادیاتی نظام کے ذریعے سے شعور کو دبایا جارہاہے شعور کو دبانے اور ختم کرنے کےلیے کرپشن کو عام کیا جارہاہے۔
یہاں کرپشن سے مراد ہرگز مالی کرپشن نہیں ہے کرپشن سے مراد بدعنوانی اپنے طاقت سے ناجائز فائدہ اٹھانا اپنے باتوں کو دوسروں پر مسلط کرنا ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کا کہنا ہے ” اپنی زاتی مفادات کےلیے طاقت کو Abuse کرنا کرپشن ہے”
طاقت صرف زاتی ,انتظامی , ادارہ جاتی نہیں ہوتی ہے گھر کے سربراہ سے لےکر ادارے کے سربراہ تک سب اپنے اپنے “طاقت” کے حامل ہوتے ہیں اور اس کا غلط استعمال کر سکتے ہیں۔
ایک استاد , ایک باپ , ایک ماں بھی کرپشن کرسکتی ہے۔ اب میں جو بات کرنے جارہی ہوں وہ ہے لسبیلہ یونیورسٹی کا شعبہ تعلیم۔ ویسے اگر دیکھا جاے تو لسبیلہ یونیورسٹی بلوچستان کے مرکز میں واقع ہے جس کی وجہ سے بلوچستان کے بہت سے اضلاع ( آواران, پنجگور , تربت , گوادر , خضدار , سوراب قلات اور کراچی کے علاقے لیاری ,ملیر) کے طلبہ و طالبات اپنا رُخ لسبیلہ یونیورسٹی کی طرف کرتے ہیں اور ان علاقوں سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر اسٹوڈنٹس اپنا رُخ شعبہ تعلیم(ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ) کی طرف کرتے ہیں کیونکہ کچھ طلبا کہتے ہیں کہ ایجوکشن بہت آسان ہے اور بہت سے طلبا اپنی دلچسپی کی وجہ سے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کا رُخ کرتے ہیں لیکن اس بات نے مجھے سوچنے پر مجبور کردیا جب میں نے اپنی ایک سہیلی (جو ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں پڑھ رہی ہے) سے پوچھا کہ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں ایسی کیا بات ہے جو بلوچستان کے اسٹوڈنٹس شعبہ تعلیم کی طرف اپنا رُخ کررہے ہیں ان کی بات سننے کے بعد میں نےایجوکیشن کے %50 اسٹوڈنٹس بشمول اساتذہ سے پوچھ گچھ کی تو پتہ چلا کہ جو شعبہ آنے والے نسلوں کو شعور دینے کی ضمانت ہےوہ تو کرپشن میں مکمل ڈوب چکی ہے۔
اب میں بات کرونگی ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور حقیقت شعبہ تعلیم لسبیلہ یونیورسٹی کی، سنہ 2013 میں ایک امریکہ نما بہت ہی عمدہ اور خوبصورت عمارت کی شکل میں بنائی گئی ہے باہر سے بہت ہی دلکش حسین عمارت ہے لیکن پڑھائی کے لحاظ سے انتہائی ناقص ہے اور ان سب کا زمہ دار بہت سے کرپشن (کرپشن سے مراد ہرگز مالی کرپشن نہیں ہے کرپشن سے مراد بدعنوانی اپنے طاقت سے ناجائز فائدہ اٹھانا اپنے باتوں کو دوسروں پر مسلط کرنا) میں مبتلا اساتذہ سے لے کر کلرک تک ہیں۔
اس ڈیپارٹمنٹ میں سب اساتذہ , کلرک اپنے فرض سے کرپشن کررے ہیں کوئی بھی لیکچرار اپنے قابلیت کے حساب سے اپنا سبجیکٹ نہیں پڑھاتا ہے کیونکہ اس ڈیپارٹمنٹ Urdu کا لیکچرار Mathmatics پڑھاتا ہے psycholgy کا لیکچرار صاحب اسلامیات پڑھاتا ہے کچھ لیکچرار تو بلکل پڑھاتے ہی نہیں ہیں بس آکر اپنے ہی تعریف میں لگے ہوتے ہیں کہ میں نے اپنے یونیورسٹی کے دن ایسے گزارے تھے پورا سیمسٹر اپنے ہی تعریف میں گزار دیتا ہے پھر اسٹوڈنٹس پریشان ہوتے ہیں کہ ہم پیپر میں کیا لکھے کہ لیکچرار صاحب نے اپنے یونیورسٹی کے دن ایسے گزارے تھے اور لکھنے کےلیے کچھ ہوتا ہی نہیں ہے۔ جب اسلامیات کے لیکچرار ریاضی پڑھاتا ہے تو اسٹوڈنٹس ریاضی کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو لیکچرار صاحب غصے میں جواب دیتا ہے کہ میرا سبجکیٹ نہیں ہے مجھے زبردستی دی گئی ہے سب سبجیکٹس کا تقریباً یہی حال ہے آپ لوگ پریشان نہیں ہوجاو میں سب کو A Gread میں پاس کردوں گا جب A Gread کا سن کر آواران, پنجگور , تربت , گوادر , خضدار , سوراب قلات اور کراچی کے علاقے لیاری ,ملیر جیسے پسماندہ علاقوں سے آنے والے اسٹوڈنٹس خوشی سے پاگل ہونے لگتے ہیں کہ مفت کا A Gread جو مل رہا ہے لیکن ان کو یہ نہیں پتہ کہ یہ نوآبادیاتی نظام میں نوآبادکاروں کا چال ہے۔
ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں ایک سبجیکٹ ہے ریاضی جو کہ 8 سیمسٹرز میں سے 6 سیمسٹرز تک اسٹوڈنٹس کو پڑھایا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے اس شبعہ میں ریاضی کا صرف ایک لیکچرار ہے سر افضل صاحب لیکن ریاضی کا لیکچرار ہونے کے باوجود ان کے اوپر ریاضی کے بجاے اور سبجکیٹ پڑھانے کےلیے مسلط کردیے گے ہیں اور اسٹوڈنٹس کا ریاضی کا کلاس آخر تک لیکچرار نہ ہونے کی وجہ سے خالی جاتے ہیں کیونکہ اس شعبہ میں ڈین(سربراہ) اور ایچ او ڈی(HOD) سے زیادہ کلرک قاسم بگٹی صاحب کی چلتی ہے وہ اپنے مرضی سے لیکچرار کو سبجیکٹ دے دیتا ہے اور جب اسٹوڈنٹس کلرک قاسم بگٹی صاحب کے پاس جاتے ہیںں کہ ہمارا کلاس خالی جارہا ہے اب پیپر نزدیک ہیں ہمارا سیمسٹر خراب ہوگا قاسم بگٹی اگر ان کو میں ڈیپارٹمنٹ کا باپ بھی کہوں میں غلط نہیں ہونگی، وہ اسٹوڈنٹس کو دھوکے میں رکھتا ہے اور اپنی من مانی کرکے پیپروں سے ایک ہفتے پہلے کبھی واٹر ڈیپارٹمنٹ سے کبھی میئرین سائنس ڈیپارٹمنٹ سے اپنے پسند کا لیکچرار بلاتا ہےکہ کلاس لے لو وہ لیکچرار آکر کلاس میں اپنا تعریف کرتا ہے اور پھر رات کو CR کو Notes واٹسپ کرکے بولتا ہے پیپر کی تیاری کرو اب ریاضی کا پیپر اور Notesناممکن ہے جب اسٹوڈنٹس خود جاکر کسی اچھے سے لیکچرار کو مناتیں ہیں کہ سر آپ ہمیں پڑھایں وہ لیکچرار اسٹوڈنٹس کی پڑھائی سے محبت اور دلچسپی و جذبات کو دیکھ کر راضی ہوکر پڑھانے کےلیے آجاتا ہے تو قاسم بگٹی صاحب اُس لیکچرار کی بےعزتی کرکے ان کو واپس بھیج دیتا ہے۔
ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں ایک لائیبراری ہے ہے جو کہ 2 سال سے اسٹوڈنٹس کےلیے بند پڑی ہے جب اسٹوڈنٹس جاتے ہیں کلرک قاسم بگٹی کے پاس کہ لائیبراری کے حوالے بات کرنے وہ الٹا اسٹوڈنٹس کو ڈانٹتا ہے کہ ہمارے پاس بندہ نہیں لائبراری کےلیے ہم لائیبراری نہیں کھول سکتے اور یہی لائبراری اسٹوڈنٹس کے پڑھائی کے بجاے قاسم بگٹی کی سربراہی میں مہمانوں کے کھانا کھانے اور چاے پینے کےلیے ہمہ وقت کھلا رہتا ہے۔ ان حرکتوں سے صاف ظاہر ہے کہ کیسے جان بوجھ کر بلوچ اسٹوڈنٹس کو شعوری تعلیم سے کیسے دور کیا جارہا ہےبہت سے لیکچرار سوالات پوچھنے اور قاسم بگٹی attendance کے نام پہ اسٹوڈنٹس کو ہراساں کرتا ہے۔ قاسم بگٹی مالی کرپشن بھی کرتا ہے اسٹوڈنٹس کے نام کو میرٹ یا BEEF اسکالرشپ جو اسٹوڈنٹس کےلیے آتے ہیں وہ دوسرے اسٹوڈنٹس سے پیسے لےکر اپنے من پسند اسٹوڈنٹس کا نام ڈالتا ہے حال میں ایک اسٹوڈنٹ کے ساتھ ایسا کیا ہے قاسم بگٹی نے جس طالب کا حق تھا اسکالرشپ کا اس کے بجاے دوسرے اسٹوڈنٹ کو دے دیا ہے۔
اب آخر میں میں بات کرونگی ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ایک اہم حصے امتحانات پر یہ بات تو آپ سب نے سنی ہوگی کی کسی یونیورسٹی کے گیٹ کے دیوار پر لکھی گئی تھی کہ “کسی قوم کو اگر تباہ کرنا ہے تو ایٹم بم اور اسلحہ بارود تو بہت پرانا ہو چکا ہے ان کا تعلیمی نصاب تباہ کر ڈالو انکے امتحانی کلچر میں نقل کو فروغ دو نسلیں خود بخود تباہ ہو جائیں گی”
غور کیا جائے تو بالکل حقیقت پر مبنی بات ہے۔ججز عدالتوں میں غلط فیصلے کریں گے۔انجینیرز عمارتیں گرائیں گے،ڈاکٹرز جانیں لیں گے اور کرپٹ لوگ حکمرانی کریں گے۔(اور ملک تباہ،نسلیں برباد)
اسی طرح ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں نقل کرنا سر چڑھ کر بول رہا ہےامتحانات کے دوران اسٹوڈنٹس ایسے موبائل کھول کر نقل کرتے ہیں جیسے بلوچستان بورڈ کے میٹرک کے امتحانات ہورہے ہیں دوران پیپر بہت سے لیکچرار صاحبان اپنی آنکھوں سے بلوچستان کی موجودہ اور آنے والی نسلوں کی تباہی کو نقل کی شکل میں دیکھ رہے ہوتے ہیں لیکن وہ کچھ نہیں کہتے ہیں جب کوئی فرض شناس لیکچرار چکر لگاتا ہے تو اسٹوڈنٹس اپنا موبائل قمیض کے نیچے چپھاتے ہیں اور کچھ اپنا موبائل جلدی جلدی بند کرکے جیب میں ڈال دیتے ہیں جب فرض شناس لیکچرار چلا جاتا ہے پھر دوبارہ اسٹوڈنٹس اپنا موبائل کھول کر فخر سے نقل کرنا شروع کردیتے ہیں۔
بلوچستان بورڈ اور لسبیلہ یونیورسٹی کے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے امتحانات میں کوئی خاص فرق نہیں ہے نقل کرکے 3٠5 سے اوپر GPA لانے والے اسٹوڈنٹس کو پتہ نہیں کہ وہ خود اپنے ہاتھوں سے اپنے نسل کو تباہ کررہا ہے۔
ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو اللہ تعالئ نے اپنی نعمتوں سے ایک فرشتہ نما ڈین (سربراہ شعبہ تعلیم) سے نوازہ ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے اتنی کم ہے اسٹوڈنٹس کے ہر مسئلے کو اپنا مسئلہ سمجھ کر حل کرتا ہے میں امید کرتی ہوں کہ ڈین صاحب ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں ایسی کرپشن کو ختم کرنے میں اپنا فرض ادا کریں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں