آصف اور رشید ہمارے پاس نہیں! ۔ سائرہ بلوچ

656

آصف اور رشید ہمارے پاس نہیں!

تحریر: سائرہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

یہ 31 اگست 2018 کا دن تھا۔ شام کے وقت جب موبائل ڈیٹا آن کی تو دی بلوچستان پوسٹ وٹس ایپ گروپ پر کچھ نیوز لنکس آئے ہوئے تھے۔ اِن نیوز لنکس میں ایک خبر یہ تھی کہ “نوشکی زنگی ناوڑ سے فورسز نے گیارہ افراد کو گرفتار کیا ہے جن میں سے ایک شخص کو موقع پر ہی قتل کیا گیا ہے ” یاد رہے زنگی ناوڑ ایک تفریحی مقام ہے۔ خبر کے مطابق فرسز نے ان کا تعلق ایک کالعدم تنظیم سے جوڑ دیا تھا جبکہ تنظیم کے نام کا زکر نہیں کیا تھا، لنک کے ساتھ اُن گیارہ لوگوں کی تصویریں بھی شائع تھیں۔ جب تصویریں دیکھیں تو میرا بھائی محمد آصف ولد محمد پناہ اور کزن عبدالرشید ولد عبدالرزاق بھی اُن میں دکھائی دیا”۔

یہ محض ایک خبر نہیں تھی بلکہ آصف اور رشید کو دیکھ کر دل بیٹھ گیا تھا ،کچھ عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی،  پریشانی کے عالم میں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کس سے بات کروں اور کیا کہوں۔ اِن سب سے ہٹ کر ایک فکر جو کھائے جارہی تھی “کہ اگر والدین کو پتہ چل گیا تو اُن کا کیا ہوگا ، وہ تو جیتے جی مرجائیں گے”۔

ہم میں سے جو بھی سوشل میڈیا سے جڑے ہیں، جو خواندہ ہیں سب کو پتہ چل گیا تھا جبکہ ہم میں ذرا بھی ہمت نہیں تھا کہ ہم اپنے والدین کو اِس دلسوز خبر کی اطلاع دیں (چونکہ وہ خواندہ نہیں ہیں اور سادہ موبائل استعمال کرتے ہیں)۔ ہم خاموش رہے ۔ ایک ہفتہ گزر گیا۔

اِس نیوز کے بعد اِنہی گیارہ لوگوں کے حوالے سے دی بلوچستان پوسٹ پر دوسری  خبر آئی تھی۔ جس میں یہ کہا گیا تھا کہ “اِس واقعہ کی ایک چشم دید گواہ نے اپنا نام سامنے نہ لانے کی شرط پر سچائی یوں بتائی ہے کہ اِن گیارہ لوگوں کو سادہ لباس میں ملبوس افراد اور ایف سی کے اہلکاروں نے جبری طور پر اپنی حراست میں لیا اور پھر گیارہ میں سے ایک کو باقی دس سے الگ کھڑا کرکے قتل کردیا۔ قتل کرنے کے بعد مقتول کی لاش کے پاس اپنا بندوق رکھ دیا اور تصویر کھینچ دی، اور پھر باقیوں کو اپنے ہمراہ لے گئے۔”

آصف لیویز میں بھرتی تھا جبکہ سوراب میں ڈیوٹی دیا کرتا تھا۔ اور کافی دن وہیں پر رکتا تھا۔ جبکہ رشید خواندہ ہوتے ہوئے بھی بیروزگار تھا۔ وقتاً فوقتاً مختلف محکموں کی طرف سے مشتہر خالی اسامیوں کے لئے درخواست دیتا رہتا تھا۔ دونوں اکثر اپنے دوستوں کے ہمراہ پکنک منانے بھی جاتے رہتے تھے۔ اگر چار/پانچ دن یا ہفتہ بھر گھر نہ آتے تو اُنکے حوالے سے کوئی فکرمند نہ ہوتا تھا کیونکہ سب کا یہ خیال ہوتا تھا کہ کہیں پکنک منانے گئے ہونگے ۔

ہم اُنکے گھر نہ آنے پر ہفتہ بھر تو خاموش رہ سکتے تھے یا پھر والدین سے چھپا سکتے تھے۔ تاہم اب وہ جبری گمشدگی کا شکار ہوئے تھے کیونکہ گرفتاری کے بعد انہیں کسی عدالت میں پیش نہیں کیا جا رہا تھا یقیناً اب یہ کہنا یا اندازہ لگانا مشکل تھا کہ وہ بازیاب ہونگے یا نہیں۔ ہم نہ اپنے والدین کو بتا سکتے تھے نہ اُن سے چھپا سکتے تھے۔ کچھ دن گزرنے کے بعد بحالت مجبوری ہمیں اُنکو بتانا پڑا ، تب اُنکی جو حالت تھی اور ہے وہ شاید بتانے کی ضرورت نہیں۔

اب والدین کے ساتھ ہم سب با خبر ہوکر بھی خاموش تھے۔ اِس خاموشی کے پیچھے چھپا ہمارا ڈر تھا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ آصف اور رشید بےگناہ ہیں ، ریاستی اہلکاروں کی جانب سے اُن کی غیرقانونی جبری گمشدگی ایک ظلم ہے اور غلط ہے۔ ہم خائف تھے جیسے ہم ہی گنہگار ہیں اور اگر اُنکے لئے آواز اٹھائیں گے تو خاندان میں سے مزید لوگوں کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا جائےگا۔ یا پھر ریاستی اہلکار ہمیں یا آصف اور رشید کو کوئی نقصان پہنچائیں گے، جیسا کہ وہ اکثر کرتے رہتے ہیں۔

ہم خاموش مگر بےسکون تھے، آصف اور رشید ہمارے زہنوں پر حاوی تھے۔ اُنکی تشدد زدہ تصاویر دیکھنے کے بعد ایک لمحہ انہیں بھول نہیں پارہے تھے۔ بالآخر ہم نے فیصلہ کرلیا کہ ہم ضرور اُنکے لئے آواز اٹھائیں گے۔ اپنے جائز اور قانونی حقوق کو استعمال کرکے ریاستی اداروں سے سوال کرینگے کہ آخر اُنہوں نے آصف اور رشید کو جبری گمشدگی کا نشانہ کیوں بنایا ، کس قانون کے تحت اُنہیں لاپتہ کرکے قانونی حقوق سے محروم رکھا ہے؟  اگر ان سے کوئی جرم سرزد ہوا ہے تو ان پر کسی عدالت میں مقدمہ چلاتے  نہ کہ انھیں اس طرح غیرقانونی طریقے غائب کرتے۔

آصف اور رشید کی (اُن کے دیگر دوستوں سمیت) جبری گمشدگی کو سی ٹی ڈی اور فورسز کی مشترکہ کاروائی کا نام دیکر “جنگ اخبار” میں خبر چھاپا گیا تھا جبکہ مین اسٹریم میڈیا کے “آج نیوز” چینل پر براڈکاسٹ بھی کیا گیا تھا (اخبار کی کَٹِنگ اور نیوز چینل پر ہیڈلائنز کی وڈیو ہمارے پاس اب بھی موجود ہیں)۔ یاد رہے کہ نوشکی سے جن گیارہ لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے ، اُنہی گیارہ میں سے تین کی تصویریں “آج نیوز” دکھاکر بتاتی ہے کہ وہ کوئٹہ ہزار گنجی سے اسلحہ و گولہ بارود سمیت حراست میں لئے گئے ہیں یعنی وقوعہ کے بعد ان تینوں کی گرفتاری ایک جعلی مقدمہ میں ہزار گنجی کوئٹہ سے ظاہر کی گئی۔

دی بلوچستان پوسٹ ، جنگ اخبار اور آج نیوز تینوں میں اِس واقعہ کے حوالے سے تضاد ملتا ہے۔ واقعہ کا حقیقی رُخ دی بلوچستان پوسٹ نے رپورٹ کیا ہے (حقیقت یہ ہیکہ گیارہ نہتے لوگوں کو انٹیلیجنس اور ایف سی نے جبری طور پر گمشدگی کا نشانہ بنایا ، جبکہ ایک کو ناحق قتل کرکے کسی کالعدم تنظیم سے جوڑ دیا اور پھر  پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں اِسے سی ٹی ڈی اور فورسز کی مشترکہ کاروائی کے طور پر سامنے رکھ دیا)۔

جب گزشتہ سال ہمیں معلوم ہوا کہ آصف اور رشید کے ساتھ گرفتار اور لاپتہ ہونے والے ان کے دیگر دوست ایک ایک کرکے رہائی ہو چکے ہیں تو طویل خاموشی کے بعد آخر کار ہم نے بھی محمد آصف اور عبدالرشید کی جبری گمشدگی کے خلاف آواز اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ 11 جون 2021 کو جبری گمشدگی کے خلاف عالمی دن کے موقع پر میں نے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے پاس آصف اور رشید کے کوائف جمع کرا دِئے اور احتجاج شروع کیا تو حکام نے ہم سے رابطہ کیا اُس کے بعد سے اب تک بیشتر تفتیشیں ہو چکی ہے۔ میں کبھی نوشکی تو کبھی کوئٹہ و کراچی تفتیش کے حوالے سے جاتی رہی ہوں ۔ ایک طویل وقت گزرنے کے بعد آج جے آئی ٹی/ انٹیلیجنس کہتی ہے کہ میرا بھائی اور کزن اُنکی حراست میں نہیں ہیں۔

آصف اور رشید کے حوالے سے جے آئی ٹی کا دعوٰی ایک سفید جھوٹ ہے۔ ریاستی اداروں کے ہاتھوں آصف اور رشید کی گرفتاری اور گمشدگی کے جو شواہد و ثبوت موجود ہیں انھیں کوئی بھی رد نہیں کرسکتا۔ ہمیں بتایا جائے آخر انہوں نے میرے بھائیوں کو کس جرم کے تحت ماورائے قانون گمشدہ کردیا ہے اور اب وہ کہاں اور کس حال میں ہیں ؟ مزید کتنی مدت کے لئے عقوبت خانوں میں رہیں گے ؟ انکے حوالے سے آگے کیا اقدامات ہیں ؟

(یاد رہے کہ میرے بھائی اور کزن کے ہمراہ جبری گمشدگی کا شکار ہونے والے دیگر لوگ گذشتہ سال 2021 میں بازیاب ہوچکے ہیں۔ لیکن محض میرے بھائی تاحال لاپتہ ہے۔ )

پیشیوں کے دوران مجھ سے متعدد بار یہ کہا گیا ہیکہ آصف اور رشید کو بھارتی ایجنسیز نے اغواہ کیا ہے۔  وہی لوگوں کو لاپتہ کرتے ہیں اور مارتے ہیں۔ میں حکام سے پوچھتی ہوں یہ پاکستان ہے یا انڈیا  کہ جہاں اتنے سارے انڈین ایجنٹس ایف سی کی وردی پہن کر ، سرف گاڑیوں میں لشکر کی صورت گھومتے ہیں ، لوگوں کو لاپتہ کردیتے ہیں جبکہ پاکستان کے نمبر ون فوج اور انٹیلی جنس کو خبر تک نہیں پڑتی ؟ میں حکومت اور عدلیہ سے مطالبہ کرتی ہوں کہ وہ جبری گمشدگی کے شکار افراد کو قانون نافذ کرنے والے سفاک اداروں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں اور میرے بھائی محمد آصف ولد محمد پناہ اور میرے کزن حافظ عبدالرشید ولد عبدالرزاق سمیت تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کر کے فوری طور پر رہا کریں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں