ہونٹوں پر مُسکان اور خاموش شخصیت – ساچان آسکانی

630

ہونٹوں پر مُسکان اور خاموش شخصیت

تحریر: ساچان آسکانی

دی بلوچستان پوسٹ

انقلاب صرف خون نہیں مانگتا انقلاب آپ سے وہ سب کچھ چین لیتا ہے جو آپ کو اپنے جان سے بھی زیادہ عزیز ہوں۔ آپ کی ساری خوشیاں، وہ گلی کوچوں کی یادیں وہ طبعی زندگی جو وہ آپ اپنی مرضی سے جینا چاہتے ہوں وہ ہونٹوں کی مہکتی مسکراہٹ آپکی طبعی رویوں کو اپنے وش میں کرلیتا ہے۔

انقلاب وہ نہیں ہوتا جسے آپ تعین کرتے ہیں چونکہ انقلاب وہ ہوتا ہے جو آپ کو چھنے آپ کو اپنا اجارہ سمجھے، انقلاب چھ لفظوں پر معیط الفاظ نہیں جسے آپ جانے بنا قبول کریں انقلاب اک پرتشدد داستان ہے جسے پڑھنا اور پڑھانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔

انقلاب کو وہ لوگ اپناتے ہیں جو اپنی عیش و آرام دہ کرتے ہیں دنیاوی زندگی سے دور سنیاسی یا سادو بن جاتے ہیں وہ عظیم شخصیت کے مالک ہوتے ہیں جو ذاتی انا ذاتی مفادات سے بیگانہ جو پسند اور نہ پسند جیسی نظریات سے نا آشنا ہوکر اک عظیم معاشرہ تخلیق کرنے میں کامیاب اور ثابت قدم ہوتے ہیں۔

بلوچ سرزمین میں ایسے عظیم ہیروز کی کھبی کمی درپیش نہ ہوئی انقلاب کے ان سخت حصولوں کو اپناتے ہوئے سر بہ کفن ہوکر وہ ہر دور میں پیدا ہوتے گئے اور ہوتے رہینگے۔

آج جس عظیم شخصیت کے بارے میں میرے جیسا لاعلم قلم اٹھانے کی جرات کر رہا ہے شاہد اس عظیم شخصیت کی توہین ہو کیونکہ میرے پاس وہ الفاظ نہیں جو آپ کیلئے موزوں ہوں۔

اس عظیم شخصیت کا نام شہید یوسف نزر عرف جورک تھا جسے ساہیجی کھبی نہیں بھول سکتے۔ آپ کولواہ کے علاقے چمبر  22/05/1988 میں پیدا ہوئے، 2003 میں نقل مکانی کرکے فیملی سمیت گوادر کا جڑواں ساحلی شہر پسنی میں مقیم ہوئے، آپ ایف اے گریجویٹ ہونے کے ساتھ اک ٹیلر ماسٹر بھی تھے۔

شہید یوسف نزر نے اپنی سیاسی جدوجہد کا آغاز پسنی 2004 میں بی ایس او آزاد کے پلیٹ فارم سے کیا اور پھر 2005 میں بلوچ مزاحمتی تحریک میں شامل ہوکر اپنی انقلابی اور گوریلہ ہنر مندی کو حرکت میں لاکر ہُمہ وقت خندہ پیشانی سے جدوجہد کرتے رہے۔

آپ 1 اگست 2006 میں ازدواجی بندھن سے جُڑ گئے، اور آپ کے گھر میں ایک بیٹی امبر یوسف 5/10/2007 میں پیدا ہوا۔ آپ کی گوریلہ صلاحیتوں کے وجہ سے نیٹورک کمانڈر کے عہدے پر فائز ہوئے اور رازداری کی سبب آپ کے ساتھیوں نے آپ کو فرشتے کا لقب سوگات کیا۔

شہید یوسف نذر خاموش مجاذ اور ہونٹوں پہ مُسکان لئے نرم گو اور نرم رویوں کے مالک دلچسپ شخصیت تھے۔ وہ تاریک اور بیانک دن ہمیں اچھی طرح یاد ہے جب شہید یوسف نذر اور ایچ آر سی پی، بی این ایم کے ممبر شہید صدیق عیدو کچھ ساتھیوں کے ساتھ گوادر پیشی میں گئے تو واپسی پر 21 دسمبر 2010 کو کارواٹ کے مقام پر ریاستی خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے آپ دونوں کو پولیس کے سامنے اغواء ہونے کے بعد لاپتہ کردیا۔

کچھ مہینوں تشدد اور اذیت کے بعد 28 اپریل 2011 کو بزی کنڈگ کے مقام پر مسخ شدہ لاشیں ملی جو بعد میں مٹی کے آغوش میں لافانی زیست پاکر امر ہوگئے۔ اور بلوچ قوم سے جسمانی طور پر جدا ہوئے آپ کی سوچ اور نظریہ ہمیشہ بلوچ نوجوان انقلابی سپوتوں کی رہنمائی کریگی۔

آپ اور بلوچ شہدا ہمیشہ ہمارے دلوں اور سوچوں میں زندہ رہینگے۔۔۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں