ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔۔۔! – حسیب بلوچ

510

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔۔۔!

تحریر: حسیب بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ہم اکثر کتابوں میں پڑھتے آئے ہیں کہ شہید کا خون کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔ کیا واقعی یہ لہو اس بنجر اور ویران چمن کی سرسبزی و شادابی کا سبب بنے گی؟ لیکن تاریخ میں ہمیشہ ایسا نہیں ہوا، تاریخ نے ظالم کے ہاتھوں سے بہنے والے ہر مظلوم کے خون کے قطرے اپنے پنوں پر نقش نہیں کیے، بلکہ کچھ چہرے ہمیشہ کے لیے تاریک راہوں کے ہی نظر ہوگئے۔

گذشتہ دنوں بلوچستان کے ضلع پنجگور میں جب داد جان نامی نوجوان اپنی دوکان میں دو وقت کی روٹی کما رہا تھا تو ریاستی حمایت یافتہ ایک گروہ نے گولیوں سے چھلنی کرکے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ داد جان نے اپنی درس و تدریس کا سلسلہ سخت گھریلو معاشی حالات کے پیش نظر چھوڑ کر دو وقت کی روٹی کمانے کے لیے سبزی فروشی کا پیشہ اختیار کیا، داد جان علاقائی سطح پر فٹبال کے اچھے کھلاڑیوں میں جانا جاتا تھا۔

صبح سویرے اٹھ کر روٹی کمانے جانا اور شام کو دوستوں کے ہمراہ فٹبال کھیل کر واپس رات کو گھر لوٹ جانا یہی اس کی کل زندگی تھی۔ لیکن شومئی قسمت اس ہنسمُک چہرے کے مسکراہٹیں بھی گولیوں کی آواز میں غبار کردی گئی۔

شہید داد جان بلوچ کا واقعہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا، اس طرح کے واقعات پنجگور سمیت بلوچستان بھر میں تواتر کے ساتھ ہوتے آرہے ہیں، اب تو یہ روز کا معمول بن چکے ہیں۔ لیکن آج میرا گلہ اس قاتل سے نہیں جس کے بندوق کے نوک سے نکلی ہوئی گولیاں شہید داد جان کے سینے کو چھیرتی ہوئی گزرے، قاتل سے کیا گلہ اس کا مقصد ہی اس چمن کی بربادیوں کا جشن منانا ہے۔لیکن شکوہ چہار سُو پہلے اس دردناک بے حسی اور خاموشی سے ہیں جو مسکراتے داد جان کی سانسوں کو چھینے کا سبب بنے۔

پنجگور شہر گذشتہ کئی سالوں سے ایک جنگی میدان بنا ہوا ہے، مقتدر قوتوں کے زیر تسلط اس شہر کے باسی پرامن اور محبت بھری زندگیوں کا خواب کب کا ترک کرچکے ہیں۔ ریاستی جنگی پالیسیوں کے زیر تسلط رہ کر ظلم و جبر سہتے سہتے اب اس شہر کے باسی بھی یہ مان چکے ہیں کہ اگر ان کی زندگیوں کی بقاء کا کوئی راستہ ہے تو وہ جبر اور تشدد اور ریاستی لوٹ کھسوٹ کا حصہ بن کر ہی ممکن ہوسکتا ہے۔ آج اس شہر کی حالت یہ ہے کہ اس شہر کے باسی جنگی مشینری کا حصہ بننے کو اپنے لیے فخر کا باعث سمجھتے ہیں، اس شہر میں ایک مکمل انسان ہونے کا معیار لوٹ کھسوٹ اور جبر پر منحصر ہیں۔

ہر سماج کے شعوری و خیالی محافظ اس کے سیاسی ادارے ہوتے ہیں، اور تمام تر نئے خیالات اور کلچرز کو متعارف کرانے کا ذمہ دار بھی یہی ادارے ہوتے ہیں۔ دراصل اس سماج کی دماغ اور خوبصورتی اس کے سیاسی ادارے ہی ہوتے ہیں لیکن جب یہ بندوق بردار اور نفرتوں بھرا کلچر پروان چڑھا تھا تب بلوچ کے بچے نے اپنے ہی بھائی کے ساتھ نفرتوں کی زبان بولنا شروع کردی تھی۔

تب ان سماج کے محافظوں نے اور سیاسی لیڈرشپ نے بلوچ سماج کی شعوری و سیاسی حفاظت کو ترک کرکے چند ٹھیکوں اور وزارتوں کے عوض کمپرومائز کرنے میں ہی بہتری پائی۔ اور موقع پرستی کی راہ اختیار کرکے سماج کی بھاگ دوڑ ان بندوق برداروں کے ہاتھ میں دینا ہی بہتر سمجھا اور اپنی تمام تر سیاست ٹھیکوں تک اور ریاستی عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے پر مرکوز رکھا۔

اب بلوچ سماج کی حالت یہ ہوچکی ہے کہ ہمارے تمام تر سیاسی و سماجی ڈھانچوں پر ریاستی آلہ کار براجمان ہیں اور بندوق اور جبر و تشدد کا بول ہر طرف بالا ہیں ۔

شہید داد جان بھی ہزاروں دیگر بلوچ فرزندوں کی طرح ریاست کی طرف سے متعارف کردہ جنگی پالیسیوں کے بھینٹ چڑھا اور اپنی سانسیں گنوا بیٹھا۔ لیکن آخر کب تک داد جان جیسی زندگیاں یوں ہی اس ریاستی بندوق بردار کلچر کے بھینٹ چڑھتے رہیں گے؟ آخر کب تک ہم یوں ہی اپنے پیاروں کی لاشوں کو رات کی تاریکیوں میں دفناتے رہیں گے؟ آخر کب تک یہ چمن یوں ویران ہی رہے گا؟

شہید داد جان ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ میں بے نام موت نہیں مرنا چاہتا اب وقت آچکا ہے کہ ہم ہماری خون کی پیاسی قوتوں کے سامنے سینا سپر ہوکر کھڑے ہوں اور داد جان کو تاریک راہوں میں مرنے نہ دیں۔ اب وقت آچکا ہے کہ ہم ان بندوق برداروں کو عزت کی نگاہ سے دیکھنے کی بجائے ان کی حوصلہ شکنی کریں۔ ہمارے سماج میں ان جابر قوتوں کے آلہ کار بننے کے بجائے ان کے خلاف جدوجہد کرنے کو اب ہمیں ایک مکمل انسانی معیارات کے طور پر دیکھنا ہوگا۔ اس سماج میں شہداء کے خون کو رائیگاں جانے سے بچانے کے لیے آج یہ ضروری ہے کہ ہم مزید خاموش اور بے حس رہ کر ان قاتلوں کی حوصلہ افزائی نہ کریں۔

یہ خاموشیاں قاتل ہیں۔۔۔!
یہ بے حسی قاتل ہے۔۔۔!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں