پاکستان افغانستان سرحد پر پاکستانی جیٹ طیاروں کی بمباری سے بچوں سمیت کئی افراد کی ہلاکتوں کی اطلاعات آرہے ہیں۔ آزاد ذرائع کے مطابق کم از کم چالیس افراد اس واقعہ میں جاں بحق ہوچکے ہیں جن میں بچے بھی شامل ہیں۔
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے مقامی افغان حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ سرحد کے قریب پاکستانی ایئر فورس اور توپ خانے کی بمباری کے نتیجے میں متعدد افغان شہری مارے گئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ یہ حملے افغانستان کے مشرقی صوبے کنڑ اور خوست میں رات گئے کیے گئے۔
طالبان کے محکمہ ثقافت و اطلاعات کے صوبائی سربراہ نجیب اللہ حنیف نے نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا ہے کہ کنڑ میں گذشتہ تین دنوں سے پاکستانی فورسز کی جانب سے توپ خانے سے بھاری گولہ باری کا سلسلہ جاری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ شب بچوں سمیت پانچ عام شہری مارے گئے ہیں اور ایک زخمی ہے۔
اسی طرح صوبہ خوست میں طالبان کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستانی ایئرفورس نے صوبہ خوست کی سپیرہ ڈسٹرکٹ کے چار دیہاتوں کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں دو عام شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ کئی دیگر رپورٹوں میں ہلاکتوں کی تعداد اس سے زیادہ بتائی جارہی ہے۔
دوسری جانب پاکستان نے اس کی تصدیق نہیں کی ہے کہ آیا پاکستانی فورسز کی جانب سے حملے کیے گئے ہیں۔
جبکہ افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بیان میں اپنے پاکستانی ہم منصب سے مطالبہ کیا کہ وہ ایسے حرکات سے ہمارے برداشت کا امتحان نہ لے اور یہ غلطی پھر سے نہ دہرائے ورنہ اس کے سنگین نتائج ہونگے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان مسائل کو سیاسی طریقے سے حل کیا جانا چاہیے۔
ادھر شمالی وزیرستان سے رکن پاکستان اسمبلی محسن داوڑ نے ہفتے کے روز پاکستان کے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی جیٹ طیاروں نے گذشتہ رات افغان سرحدی علاقے میں بمباری کی اور اس اس واقعے کی تحقیقات کروائی جائیں۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں اس علاقے میں پاکستان سے گئے ہوئے آئی ڈی پیز جانبحق ہوئے ہیں –
انہوں نے گذشتہ حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ان افراد کی واپسی کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔
اسپیکر کی جانب سے پروڈکشن آڈر پر اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے آنے والے جنوبی وزیرستان کے ایک اور رکن پاکستان اسمبلی کے علی وزیر نے بھی اس موضوع پر بات کی۔
علی وزیر کا کہنا تھا کہ پاکستانی جیٹ طیاروں نے بمباری کی ہے لیکن معلوم نہیں کتنی ہلاکتیں ہوئی ہیں اس موقع پر بھی محسن داوڑ نے بلند آواز میں بتایا کہ چالیس سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے گفتگو میں محسن داوڑ نے بتایا کل اس علاقے میں پاکستان کے افغانستان سے متصل سرحدی علاقوں سے بے گھر ہونے والے لوگ مقیم ہیں۔
Pakistani war crimes in Afghanistan. 40 civilians have been murdered by Pakistani airstrikes in Khost province. #PakWarCrimesInAfg pic.twitter.com/zmKLFGRNMd
— Habib Khan (@HabibKhanT) April 16, 2022
دریں اثناء افغانستان میں طالبان حکومت کی وزارت دفاع نے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستانی فوج کے جیٹ طیاروں نے افغانستان کے صوبہ کنڑ اور صوبہ خوست کے کچھ حصوں پر گولہ باری کی جس سے بھاری جانی نقصان ہوا ہے۔
طالبان کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے کابل میں پاکستان کے سفیر منصور احمد خان کو طلب کر لیا ہے۔
وزارت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ افغان حکام نے خوست اور کنڑ کے کچھ حصوں میں پاکستانی افواج کے حالیہ حملوں کی شدید مذمت کی اور اس سے مزید ایسے حملے نہ کیے جانے کا مطالبہ کیا۔
طالبان کا کہنا ہے کہ انہوں نے پاکستانی سفیر سے کہا ہے کہ ’خوست اور کنڑ سمیت تمام فوجی خلاف ورزیوں کو روکنا ضروری ہے اور اس طرح کے واقعات سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پیدا ہوسکتی ہے۔ جس کے برے نتائج ہوں گے۔