وطن کا نصیب ۔ ساجد بلوچ

555

وطن کا نصیب

تحریر: ساجد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آزادی کے لیے وجود رکھنے والی ہر وہ خدائی مخلوق طلب گار ہیں جو اپنے آنے والے نسلوں کی زندگیاں پُرسکون دیکھنا چاہتے ہیں۔ اپنے وطن کے آزادی کی خاطر خود کو فنا کرنے والے فرزندان سینکڑوں میں ہیں جن میں ایک نصیب جان بھی ہے۔

نصیب جان حکمت عملیوں سے لیس اور مخلص قوم دوست تھا نصیب ہر وقت ایک ہی مقصد کی تلاش میں تھا جسے عرفِ عام میں آزادی کہتے ہیں نصیب جان کمسنی ہی سے اپنے تمام تر خواہشات کو قتل کر کے اپنے قوم کی اجتماعی آسودگی کی خاطر پہاڑوں کو اپنا مسکان بنا کر دشمن پر قہر بن کر ٹوٹ پڑا۔ نصیب جان اپنے وطن کہ لیے اپنے تمام تر آسودگیاں ترک کرکے ایک روشنِ صباء کے لیے بلند و دشوار پہاڑوں کا رخ کر لیا۔

نصیب جان ایک اعلیٰ سوچ و جنگی معاذ پہ مہارت رکھنے کے ساتھ ساتھ مختلف جگہوں پہ جنگی سرکلز لگوا کر اکثر دوستوں کی تربیت کرنے کے ساتھ ساتھ نوجوان نسل کو آزاد بلوچستان کا درس دیکر کہتا تھا کہ نوجوان نسل ہر وقت ہر گھڑی خود کو ذہنی طور پہ کسی بھی قربانی دینے سے پیچھے نہیں ہٹے۔ اور دشمن کا مقابلہ کر کے لیے خود کو ہر معاذ پر برسرپیکار رہیں۔

وطن کے نصیب کا تعلق کمانڈر حمید شاہین، شہید رحمت اللہ شاہین، استاد عبدالرسول، نورا بلوچ و فیصل بلوچ جیسے آجوئی دوست و بہادروں کی سرزمین مستونگ اسپلنجی سے تھا۔ نصیب جان عام سپاہی سے لے کر کمانڈری تک کے سفر کو مستقل مزاجی و انتہائی مخلص و احسان طریقے سے نبھاتا رہا جیسے تاریخ میں ہمیشہ سنہری الفاظ میں لکھا جائے گا۔

کمانڈر شہید نصیب جان بنگلزئی آپ نے اپنی پرآسائش زندگی و خاندان ہمارے آج و کل کے لیے قربان کرکے ہم جیسے ڈر کے مارے لوگوں کو یہ پیغام دیا کہ ہم پر ایک تہذیب سے عاری و زر پسند دشمن قابض ہے جس کے خلاف پورے قوم کو ایک ہی لائن میں کھڑے ہوکر کر مزاحمت کرنی ہوگی نہیں تو ہماری وجود کا کوئی نام و نشان نہیں ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں