وسائل سے مالامال بلوچستان کے لوگ
تحریر: مولانا منور ایاز تُمپی
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان دُنیا کی نقشے میں وہ سرزمین ہے جس میں معدنیات کی بلکل کمی نہیں بلکہ ہر طرح کی معدنیات سے مالامال ہے، اللہ پاک نے اس سرزمین کو سونا، چاندی، پٹرول، گیس، کوئلہ اسکے علاوہ دیگر معدنیات سے نوازا ہے لیکن بدقسمتی سے ان سب قدرتی معدنیات کے ہونے کے باوجود یہاں کے لوگ غربت و بدحالی کی زندگی گذار رہے ہیں۔
پاکستان کا سب سے امیر صوبہ باقی سب صوبوں سے پسماندہ صوبہ بن چکا ہے۔ ان معدنیات کو رہنے دیں سب سے اہم گوادر کو سی پیک کا مرکز کہا جاتا ہے ہر طرف گوادر گوادر کا چرچا ہے لیکن وہاں کے لوگ کس حال میں زندگی گذار رہے ہیں اس کا اندازہ بھی ہم نہیں لگا سکتے ہیں۔
سوشل میڈیا اور نیوز چینلوں پہ ہم اس گوادر کی تعریفیں سُن سُن کر تھک چُکے ہیں کہ گوادر سنگاپور، دبئی، سوئزرلینڈ بننے جارہا ہے لیکن گوادر کا عوام آج تک بُنیادی ضروریات میں سے سب سے اہم ضرورت پانی سے بھی محروم ہیں۔
ایک اور اہم مسئلہ پاکستان کا سب سے بڑا گیس ذخیرہ ڈیرہ بُگٹی کے مشہور علاقے سوئی میں موجود ہے، جہاں سے گیس پاکستان کے چپّے چپّے میں پہنچا دی گئی ہے لیکن جس زمین سے یہ گیس نکل رہی ہے وہاں کے لوگوں کے لیے یہ گیس میسر نہیں۔۔۔
بلوچستان کے باقی مسئلوں کی طرح ایک بڑا مسئلہ سرکاری ہسپتالوں کا ہے جہاں نا کہ ڈاکٹر موجود ہیں اور نا دوائیاں، چھوٹی سی بیماری کے لیے ہمیں یہاں سے کراچی جانا پڑتا ہے۔ وفاقی حکومت کی طرف سے سالانہ جو بجٹ کروڑوں روپوں میں ہسپتالوں کے لیے بنتے ہیں لیکن معلوم نہیں یہ پیسے کہاں خرچ ہورہے ہیں۔
مسئلہ یہاں پہ ختم نہیں ہوتا اگر ہم بلوچستان میں تعلیمی سرگرمیوں پر نظر ثانی کریں تو بلوچستان میں تعلیم کو کوئی اہمیت نہیں دی جارہی ہے، بلوچستان میں اکثر اسکولوں میں کلاس روم اور اساتذہ کی قلت ہے، میں خود جس سکول میں پڑھا رہا ہوں ابھی جو نئے سال کا دوسرا مہینہ چل رہا ہے سکول میں کتابیں میسر نہیں، اسکے علاوہ میرے گھر سے منسلک سکول کی حالت یہ ہے کہ یہاں پر پڑھنے کے لیے کم از کم ڈیڈھ سو سے زیادہ طالب علم ہیں لیکن پڑھانے والا استاد صرف ایک ہے۔ بلوچستان کے پچوں کو پڑھنے کا بہت شوق ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے لوگ تعلیم سے محروم ہیں۔
بلوچستان کے عوام خصوصاً تحصیل تُمپ کے لوگ مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر حکمرانوں کو فرصت ملے تو اس طرف ضرور توجہ دیں۔۔۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں