نئی حکومت کے پہلے دن 22 افراد کو لاپتہ کیا گیا – ماما قدیر بلوچ

670

بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاجی بھوک ہڑتالی کیمپ کو کوئٹہ پریس کلب کے سامنے آج 4644 دن مکمل ہوگئے- بلوچستان کے ضلع دالبندین سے سیاسی سماجی کارکنان محمد ایوب بلوچ، درمحمد بلوچ اور دیگر نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے جبری گمشدگیوں پر تشویش کا اظہار کیا –

اس موقع پر تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے گومازی میں گذشتہ شب پاکستانی فورسز نے علاقے میں اپنی جارحیت کے دوران 7 افراد کو حراست میں لیکر جبری طور پر لاپتہ کردیا لاپتہ کیے گئے افراد کی شناخت محبوب ولد شیران، شعیب ولد محمد شاہ ، واجد ولد واحد، واجد ولد اکبر ، فرید ولد یونس، مبارک ولد دلمراد کے ناموں سے ہوگئی ہے-

انہوں نے کہا کہ علاقائی زرائع کے مطابق اس قبل بھی مذکورہ افراد فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی کا شکار ہوئے تھے جو بعد میں رہا کیے گئے تھے-

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ دو روز قبل بھی گومازی سے فورسز نے 15 افراد کو حراست میں لیکر جبری طور پر لاپتہ کیا تھا جن کی شناخت نوہان ولد اختر، سیٹ عمر ندیم ولد عمر داؤد ولد سلیمان کے ناموں سے ہوئی ہیں اور دیگر کی شناخت نہیں ہوسکی ہے –

انکا کہنا تھا کہ یہ 22 لوگ اس دن لاپتہ ہوگئے تھے جس دن نئی حکومت حلف اٹھا رہا تھا – یہی لوگ جب اپوزیشن میں تھے تو لاپتہ افراد کے بارے میں بلند بانگ دعوے کرتے نہیں تھکتے نہیں تھے۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ حلف اٹھانے کے بعد نئے وزیراعظم نے اپنی تقریر میں لاپتہ افراد کے لیے کوئی ذکر تک نہیں کیا جس سے لاپتہ افراد کے لواحقین مایوس ہوئے ہیں ان کی امید تھیں کہ نئی حکومت آئیگی تو سب سے پہلے لاپتہ افراد کا ذکر ہوگا کہ بلوچوں کا لاپتہ ہونا ،اپریشن اور لاشیں گرانا بند کرکے لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنایا جائے گا – لیکن لاپتہ افراد کی لواحقین پھر ایک دفعہ اقوام متحدہ انسانی حقوق کے اداروں کی طرف متوجہ ہوگئے ہیں –