میں مذمت کرتا ہوں ۔ حکیم وڈیلہ

1110

میں مذمت کرتا ہوں

تحریر: حکیم واڈیلہ

دی بلوچستان پوسٹ

چونکہ آج کل مذمت کرنے کی سیاست ہورہی ہے، ہر ایک شخص مذمت کرنے پر تلا ہوا ہے تو راقم نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ وہ مذمت کرے گا۔

میں مذمت کرتا ہوں، مذمت ستائیس مارچ 1948 کو ایک آزاد ریاست پر بزور طاقت بیرونی طاقت پاکستانی فوج کے قبضہ اور ریاست قلات کی مسجد پر بمباری کی مذمت۔

میں مذمت کرتا ہوں، شہزادہ آغا عبدالکریم کے ساتھ پاکستانی ریاست کے وعدے اور بعد میں اس وعدوں کو روند کر انہیں زندانی کرنے کی مذمت۔

میں مذمت کرتا ہوں، پیراں سالہ نواب نوروز خان کو قرآن پاک کا واسطہ دیکر پہاڑوں سے اتار کر بلوچ قومی مسائل کا حل تلاش کرنے کا وعدہ کرکے بعد ازاں اُس وعدے کی خلافی کرتے ہوئے انہیں اور انکے فرزندان کو جیل میں ڈالنے اور انکے فرزندوں کو پھانسی پر لٹکانے کی مذمت۔

میں مذمت کرتا ہوں، ستر کی دہائی میں بلوچوں کی حکومت کو سازش کے تحت ختم کرکے بلوچوں پر ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں انسانیت سوز آپریشن میں ہزاروں بلوچ مرد خواتین اور بچوں کی قتل عام، جبری گمشدگیوں اور بلوچ رہنماوں کو جیلوں میں ڈالنے کی مذمت۔

میں مذمت کرتا ہوں، 6 فروری 1974 کو بلوچستان کے سب سے پہلے جبری گمشدگی کا شکار بنائے جانے والے اسد مینگل اور انکے ہمراہ احمد شاہ کرد کی جبری گمشدگی کی مذمت۔

میں مذمت کرتا ہوں، 1986 میں ضلع گوادر کے علاقے جیونی میں پینے کے صاف پانی کی عدم موجودگی کے جواب میں پر امن احتجاج کرنے والوں پر فائرنگ کرتے ہوئے 11 سالہ یاسمین کو شھید کرنے اور دیگر افراد کو زخمی کرنے کی مذمت۔

میں مذمت کرتا ہوں، بلوچ قومی جدوجہد میں جماعتی سیاست میں جدیدیت متعارف کرانے والے بلوچ راہنما فدا احمد بلوچ کو 2 مئی 1988 میں سازش کے تحت قتل کرنے کی مذمت۔

میں مذمت کرتا ہوں، 28 مئی 1998 میں بلوچستان کے کوہ دامن چاغی میں پاکستانی ریاست کی جانب سے آبادی والے علاقوں میں ایٹمی دھماکے کرنے کی مذمت۔

میں مذمت کرتا ہوں، 18 اکتوبر 2001 سے لاپتہ علی اصغر بنگلزئی کی جبری گمشدگی اور انہیں بازیاب نہ کرنے کی مذمت۔

میں مذمت کرتا ہوں پاکستانی فوج کی جانب سے ڈیرہ بگٹی میں بزرگ بلوچ رہنما شہید نواب اکبر خان بگٹی حملہ کرتے ہوئے سینکڑوں لوگوں کو قتل کرنے جن میں خواتین بچے بھی شامل تھے۔ اس انسانیت سوز عمل کی مذمت۔

میں مزمت کرتا ہوں بزرگ بلوچ رہنما نواب اکبر خان بگٹی کو شہید کرکے انکی لاش کو لوگوں سے چھپا کر تابوت پر تالہ لگاکر دفن کرنے کی مذمت۔

میں مذمت کرتا ہوں بلوچ سیاسی رہنماوں غلام محمد بلوچ، شیر محمد بلوچ اور لالا منیر بلوچ کو جبری گمشدگی کا شکار بنانے اور لاشیں ویرانوں میں پھینکنے کی مذمت۔

میں مزمت کرتا ہوں ڈاکٹر دین محمد بلوچ، ڈاکٹر اکبر مری، زاکر مجید بلوچ، ذاہد بلوچ، شبیر بلوچ، راشد حسین بلوچ، حفیظ بلوچ، کبیر بلوچ ، مشتاق بلوچ، جمیل سرپرہ سمیت ہزاروں لاپتہ افراد کی جبری گمشدگی کی مذمت۔

میں مذمت کرتا ہوں ماما قدیر بلوچ کے فرزند بلوچ سیاسی رہنما جلیل ریکی کی جبری گمشدگی کے بعد مسخ شدہ لعش برآمد ہونے کی مذمت۔

میں مذمت کرتا ہوں، سنگت ثناء بلوچ، آغا عابد شاہ بلوچ، محبوب واڈیلہ بلوچ، لالا حمید بلوچ، حمید شاھین بلوچ، نصیر کمالان بلوچ، کمبر چاکر بلوچ، مرید بگٹی بلوچ، سھراب مری، رسول بخش مینگل سمیت ہزاروں نوجوانوں کے قتل عام، مسخ شدہ لعشیں پھینکے، ٹارچر کا نشانہ بنانے سینوں پر سینکڑوں گولیاں پیوست کرنے کی مذمت۔

میں مذمت کرتا ہوں بلوچستان میں پاکستانی فوج کی سرپرستی میں سرگرم ڈیتھ اسکواڈ کے سربراہان شفیق مینگل، راشد پٹھان، زکریا محمد حسنی، قمبر خان مینگل کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والے، شہید ہونے والے عام بلوچ سیاسی ورکروں کی گمشدگی اور شہادت کی مذمت۔

میں مذمت کرتا ہوں، خضدار، ڈیرہ بگٹی اور بلوچستان کے دیگر علاقوں سے برآمد ہونے والی اجتماعی قبروں کی دریافت کی مذمت۔

میں مذمت کرتا ہوں، کراچی میں نواب اکبر خان بگٹی کی نواسی اور سردار بختیار خان ڈومکی کی اہلیہ زامر بگٹی اور انکی بیٹی جانان کو ڈرائیور سمیت شہید کرنے کی مذمت۔

میں مذمت کرتا ہوں، سی پیک روٹ کے نام پر جلائے گئے گھر، گاوں، اور جھونپڑیوں کو جلانے غریب بلوچ عوام کو مجبور کرنے اپنے علاقوں سے بیدخل کرنے کی مذمت۔

میں مذمت کرتا ہوں، بلوچستان کے شہر تُربت کے علاقے ڈنک میں ریاستی سرپرستی میں کام کرنے والے ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں کے ہاتھوں شہید ہونے والی ملک ناز کی قتل اور انکی کمسن بیٹی برمش مو زخمی کرنے کی مذمت۔

میں مذمت کرتا ہوں، کراچی یونیورسٹی کے نوجوان طالب علم حیات بلوچ کی ایف سی کے ہاتھوں انکے والدین کے سامنے ہاتھ باندھ کر آٹھ گولیاں داغ کر شہید کرنے کی مذمت۔

میں مذمت کرتا ہوں، بلوچ عوام کو بلوچستان کے سرحدی علاقوں پر کاروبار کرنے سے روکنے، بارڈر پر باڑ لگانے اور عوام کو تپتے صحراؤں میں بھوک اور پیاس سے مرنے کیلئے چھوڑنے کی مذمت۔

بلوچستان میں ریاستی ظلم، بربریت اور انسانیت سوز واقعات کی تاریخ اتنی طویل ہے کہ اگر مذمت کی تفصیل لکھنا شروع کی جائے تو ہوسکتا ہے ہزاروں صفحات لکھنے کے بعد بھی ظلم کی داستان ختم نہ ہو۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں