عزیز اور وطن کی چاہت
تحریر: میرک مرید
دی بلوچستان پوسٹ
فدائی عزیز جان عرف بارگ کو میں نے جب پہلی بار دیکھا تو ایک لمبے قد کا نوجوان، پتلا سا جسم و جان، لمبے بال اور چہرے پر ایک حسین مُسکراہٹ لیے ہوئے اُس نے مجھ سے سلام دعا کیا۔
دھیرے دھیرے جب میں عزیز سے ملنے جلنے لگا تو وہ اپنے زندگی اور جُہد کے بارے میں مجھے بتانے لگا۔ ایک دن میں اور بارگ جان ساتھ میں بیٹے تھے تو اُس نے وطن کی چاہت پر ایک موضوع چھیڑ دی۔ بارگ جان نے بات کچھ اس طرح شروع کیا کہ وطن ہمارا ایمان ہے اور کوئی بھی آدمی اپنے ایمان سے بالاتر نہیں ہوتا۔
اُس نے کہا جب ہم اپنی ماں کی گود سے اُٹھنے لگے کھیل و کھود کیلئے تو اِسی مٹھی نے ہمارے نرم پاؤں کو سنبھالا اور ہمارے لیے خود کو ایک آرام گاہ بنا دیا۔ ہم نے اپنی ماں کی لولیوں میں دوسرے ماں کے لیے درد دیکھا، ہم نے اپنی ماں کی گُنگناہٹ میں ایک جنگ کی گونجھ سُنی اور ہمارے گھروں میں ایک دن بھی عید جیسا ماحول نہیں گُذرا اور کسی نہ کسی کیلئے ہر روز ماتم کا سماں رہا۔
اُس نے آگے کہا جب ہم بڑے ہورہے تھے تو ہر روز میرا وطن مجھے یہی آواز دے رہا تھا کہ عزیز کب تم میری آغوش میں آؤگے، عزیز کب تم سر پر کفن باندھ کے میرے لیے پہاڑوں کا شہزادہ بن جاؤگے، عزیز کب تم اپنے روحانی ماں کو پہچان لوگے، عزیز کب تم اپنے سینے کو دشمن کی گولیوں کے سامنے ایک سیسہ پلائی دیوار بنا دو گے اور اس مٹھی کی چاہت پہ قربان ہو جاؤ گے؟
جب بھی سورج غروب ہونے کے وقت میں اپنے گھر سے کچھ دور جاکر اپنے زمین کی مٹھی کو چھوم لیتا تھا اور اُس کو اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں پر رکھ کے اُس میں لپٹ جاتا تھا تو مجھے یہی پُکار سُننے کو ملتا تھا اور جب بھی میں اپنے گھر میں آکر اپنی ماں کے چہرے کو دیکھتا تھا تو مجھے اُس میں زنجیروں سے بندھا ہوا ایک مظلوم اور لاچار عورت دکھائی دیتا تھا۔
جیسے اتنے سالوں کی غلامی میری ماں کی ان ہی زنجیروں سے میرے کانوں میں کنک رہی تھی اور جیسے میرے ماں کی آنکھوں سے ایک خون کی نہر اُس کے چہرے کی طرف بہہ رہی ہے اور میری ماں کا چہرہ میں مجھے خون میں لت پت دکھائی دینے لگا۔
آخر میں میں نے بارگ کی آنکھوں سے آنسوؤں کے بوندھ ٹپکتے ہوئے دیکھا اور اُس نے کہا کہ میرا گذرا ہوا کل کیسا بھی گذرا ہو، چاہے وہ زوال میں گذرا ہو لیکن آج میری سوچ، میرا ایمان اور میرا حوصلہ اس بات کا گواہ ہے کہ جب سے میں نے دوستوں کے ساتھ گوریلا جنگی عمل میں حصہ لیا ہے تو میری سوچ یہی ہے کہ میں قوم کے نوجوانوں کو ریاست کے گندھے ہاتھوں سے نکال کر اُن کو ایک آگاہی کی طرف روانہ کردو اور مجھے یقین ہے کہ میرا آنے والا کل اپنے وطن پہ جان نثار اور فدا ہونے کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہوگا۔
جب میں نے عزیز کی ایمانداری اور مخلصی کو دیکھا تو میں اپنے دل میں یہی سوچنے لگا کہ اس مٹھی نے اپنے چاہت کے لیے عزیز جیسے بیٹوں کو پہلے سے ہی جنم دے دیا ہے اس مٹھی کو یقین تھا کہ کل یہی عزیز اپنے تن و من کی سچائی سے مجھ پہ قربان ہونے آئے گا ۔
عزیز ایک ایسے عشق میں مست و مگن تھا جیسے اُسے اس دنیا کی کوئی خبر ہی نہ ہوں اور صرف اُس کی زبان پر ایک ہی نام تھا۔ وہ تھا ایک آزاد، پُرامن، مذہبی انتہاء پسندی سے پاک، ذات پات کچھ بھی نہ ہو، نہ سردار، نہ وزیر اور نہ ہی قبائلی سوچ سے وابستگی رکھنے والے لوگ۔ اُس کے زبان پر صرف غلامی سے آزاد ہونے والا بلوچستان تھا ۔
عزیز کی نرم دلی نے ہر انسان کو اپنا دیوانہ بنا رکھا تھا اور میں ہر وقت یہی کہتا رہا کہ ایک دیوانے نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے ۔
میں محسوس کرچکا تھا کہ عزیز کی چاہت اپنے عروج پر ہے اور وہ اپنے مادر گلزمین سے عشق کی انتہاء پر ہیں لیکن معلوم نہیں تھا کہ اب عزیز اس چاہت کا قرض دار ہو گیا ہے اور اس قرض کو چکانے کے لیے عزیز اپنے خون کا نظرانہ پیش کرنے والا ہے۔ وہ بھی ادراک کے ساتھ جاکر دشمن کو ششدر کرنے والا ہے۔
زندگی روز مرہ کی طرح جاری تھی کہ 2 فروری کو رات کے پہلے پہر ایک نیوز میں نے دیکھا کہ نوشکی میں ایف سی ہیڈکوراٹر پر زور دار دھماکے کے بعد سے فائرنگ کی آوازیں آرہی ہے۔ پہلے تو ہمارے سوچ میں کچھ اور تھا لیکن بعد میں مجید بریگیڈ کی نیوز آئی کے یہ اِس مٹھی کے عاشق ہے جو اپنے عشق کے کے تقاضے کو پورا کررہے ہیں۔
میرے ذہن میں فوراً عزیز جان کا خیال آیا کہ وہ ضرور اس کام میں شامل ہوگا کیونکہ اُس کا عشق آسمان کی بلندیوں سے جاملتا تھا۔
کچھ گھنٹے بعد میں نے ایک آڈیو کلپ سنا جو بی ایل اے کے چینل ہکّل پر شائع کیا گیا تھا، تو کوئی یہی کہہ رہا ہے کہ میرے کاندھے پر ایک گولی لگی ہے۔ میں اسی آواز کو غور سے سُن رہا تھا کہ یہ کون ہوسکتا ہے اور اچانک کمانڈر نے اُس سے کہا کہ قربان قربان تو وہاں سے ایک سُریلی، ہزاروں سال محنت و مشقت کرنے والی، بُلند حوصلوں والی، سینوں میں درد رکھنے والی اور ایک محبوب کی آواز نے آواز دی کہ “قربان نن نُم کہ مرین شنک اُٹ” [تم نہیں میں تم پہ قربان ہو جاؤں میری جان]۔
جب میرے دماغ کی نسوں تک یہ آواز پہنچ گئی تو میرے دماغ نے عزیز کا چہرہ میرے سامنے رکھ دیا اور میں عزیز کی صورت کو گور سے دیکھ رہا تھا کہ کمبخت آنسوؤں نے میرا ساتھ نہیں دیا اور میں نے اپنے زبان کو لفظ ‘شنکوٹ’ سے تالہ لگا کر چُپ کردیا اور آنسوؤں کو اب تک دشمن کے لیے ایک سمندری طوفان بنا رہا ہوں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں