شہید نصیب بنگلزئی کمسن گوریلا سے کمانڈر تک ۔ مزار بلوچ

1168

شہید نصیب بنگلزئی کمسن گوریلا سے کمانڈر تک

تحریر: مزار بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آزاد پیدا ہونے اور آزادی کا بنیادی حق رکھنے اور آزادی کا مطلب سمجھنے والا انسان جب گھٹن کے ماحول میں اپنے نہتے بے بس لاچار قوم کے سانسوں تک کو شکنجے میں جھکڑا دیکھتا ہے تو ان کی حالت بدلنے کی سوچ کے ساتھ اس کے اندر قومی اور انسانی احساس پيدا ہوتا ہے وہ انسانیت سے لبریز ایک قومی سوچ کے لیے جینا شروع کر دیتا ہے جو درحقیقت خود کو بدلنے یعنی انقلاب کے ابتدائی ذہنوں میں سے ایک ہے۔ جب دھرتی ماں کے سینے پر بسنے والے قوم کے بیٹوں کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ جس سرزمین کو اپنی ماں کا درجہ دیتے ہیں وہ تو کسی غاصب کے پیروں تلے کچلا جارہا ہے۔

ہر شہر گلی کوچے میں دھرتی ماں کے بیٹے بیٹیوں بچوں پر ہلاکو چنگیزی مظالم کو مات دے کر ماں ہی کے سینے پر ان کے لاشوں کو ٹکڑوں میں بانٹنے اور ان سے بہنے والے لہو کو دیکھ کر غاصب اپنے ابلیسی چیلوں کے ساتھ قہقے بلند کرتا ہے۔ ماں کے گود میں پڑے اَمر ہونے والے بیٹوں کے لاشوں پر بھنگڑا ڈال کر پیروں تلے روندتے ہوئے ظالم اپنے طاقتور ہونے اور محکوم کو بد سے بدترین غلام ہونے کا احساس دلاتا ہے اور غاصب اعلانیہ کہتا ہے میں طاقتور ہوں جینے کا حق صرف مجھے ہے اگر کوئی جئے گا تو غلام بن کر میری مرضی سے جئے گا، اگر کوئی مرے گا تو بھی میرے مرضی سے، میں جب چاہوں جہاں چاہوں موت بانٹوں، اپنے شیطانی دماغ و روح کو تسکین دینے کے لئے ایک ساتھ ہزاروں جانیں لے کر خون بہاؤں، جب جی چاہے نازوں سے پلی کسی کی بیٹی کا چادر تار تار کردوں، جب چاہے کسی ماں کی آنکھوں کے سامنے اس کے شہزادے کے گبرو جسم کو گولیوں سے چھلنی کرکے اس ماں کی بے بسی پر قہقے ماروں، جب چاہے کسی ماں کے گود میں سوئے ہوئے لاڈلے کو رات کی تاریکی میں گھسیٹ کر لاپتہ کردوں۔
جب جی چاہے تاریک زندانوں سے کسی ماں کی جگر کے ٹکڑے کو نکال کر رات کی تاریکی میں ویرانوں میں لے جا کر اس کے لاغر بدن کو گولیوں سے چیر دوں، جب جی چاہے برسرراہ کسی بوڑھے باپ کی پگڑی اچھال کر اس کے ندامت سے لطف اندوز ہوں، جب جی چاہے اس دھرتی ماں کے بیٹوں کے مونچھیں منڈوا کر بھرے بازار میں ننگا کردوں، جب جی چاہے کسی نوبیاہتا دلہن کے سہاگ کو جعلی مقابلے میں مار کر خوشیاں دیکھنے سے پہلے دلہن کے ٹوٹتے چوڑیوں کو دیکھ کر اپنے مکروہ روح کو سکون پہنچاؤں، جب جی چاہے لاپتہ بیٹوں کی تلاش میں دربدر ماؤں کو سڑکوں پر ذلیل کرکے ان کے آنسوؤں کا مذاق اڑاؤں۔
یہ سب کسی ظالم قابض کی وہ حرکات ہیں کہ ایک احساس رکھنے والا انسان ان قہر برساتے درندوں کے خون میں ڈوبے ہاتھ پاؤں اور درندگی لئے منحوس چہروں کو دیکھ کر اس کے دل میں جو نفرت پیدا ہوتی ہے اور وہ انقلاب کے سفر میں عملی طور پر گامزن ہوتا ہے۔
وہ اپنے پرآسائش زندگی چھوڑ کر اپنی سانسیں اپنے دھرتی ماں اس کے کھیت کھلیان اور اس سرزمین پر بسنے والے مظلوم بے بس باسیوں پر نچھاور اور اپنے وطن کی دفاع میں اپنے آبائی مظبوط قلعوں ( پہاڑوں ) کو مسکن بنا کر دشمن کی نیندیں کردیتا ہے اور آخری سانس تک مزاحمت کرکے اپنا فرض نبھاتا ہے۔
ہمارے سرزمین بلوچستان نے ہر دور میں ایسے بہادر بیٹے جنم دیئے جو کسی بھی شے یا مجبوری کو خاطر میں نہ لا کر بچپن سے شہادت تک سرزمین کی دفاع میں ڈٹے رہے وطن کے انہی بیٹوں میں سے ایک نصیب اللہ بنگلزئی بلوچ ہیں۔ جس نے انتہائی کمسنی میں اپنے والد اور چھوٹے بھائی کے ساتھ وطن کی دفاع میں دشمن سے نبرد آزما بلوچ سرمچاروں کے سا تھ پہاڑوں کو اپنا مسکن بنایا۔
تعلیم حاصل کرنے اور کھیلنے کھودنے کے ان دنوں میں قابض ریاست نے انہیں نہ تعلیم حاصل کرنے دیا نہ دوستوں کے ساتھ کھیلنے دیا بلکہ ان علاقوں میں ظلم و جبر کو تیز کردیا۔ اپنے بےبس لوگوں پر وحشیانہ بمباری، بلوچ طالبعلموں کی مسخ شدہ لاشیں دیکھ کر وہ اپنے مقبوضہ وطن کی خاطر کچھ کر گزرنے کا جذبہ لئے بچپن ہی سے مزاحمت کے راستے پر گامزن ہوا۔ اس نازک عمر میں نہ ہی سردی گرمی بھوک پیاس پسینے سے شرابور تھکے بدن، نہ ہی بے خوابی و مشقت اس کے حوصلوں کو پست کرسکا۔ یہاں تک کہ اپنے شہید ہونے والے کمسن بھائی اور شہید ساتھیوں کی لاشیں اسے کمزور نہیں کرسکے۔
وہ اپنے والد صاحب و دیگر وطن زادوں کے ساتھ سختیاں جھیلتے ہوئے اس نوعمری میں ہی ایک باصلاحیت جنگجو بن کر ابھرے اور اپنے محنت اور صلاحیتوں کے بدولت اپنے ساتھیوں کے کمان مقرر ہوئے اور بہتر و ماہرانہ انداز میں دشمن پر حملے کرتے رہیں۔
ہمیشہ مسکرانے اور نرم و مہربان لہجے سے بات کرنے والا نصیب اللہ عرف جہانگیر گذشتہ دنوں قابض ریاست کی طرف سے عام بلوچ آبادیوں اور سرمچاروں کے کیمپوں پر بھاری فوج آپریشن کے ساتھ زمینی و فضائی حملے شروع کئے گئے اور بلوچ مزاحمت کاروں کے سائیڈ کیمپوں پر گھیرا تنگ کرنے لگے۔
جواب میں وہاں موجود نصیب اللہ نے اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ فضائی بمباری ہونے کے باوجود ڈٹ کر دشمن کے حملے کو روکے رکھا اور دشمن افواج کو شدید جانی نقصان پہنچانے اور گھیرا توڑنے کے بعد کیمپ میں موجود ساتھیوں کو بہ حفاظت نکلنے کا راستہ فراہم کرکے دشمن کے خلاف مورچہ زن رہے۔
زمینی افواج کی پیش قدمی رکنے کے بعد قابض فوج فضائی بمباری میں شدت لائی اور بلوچ سرزمین کے بہادر سپوت آخری دم تک مقابلہ کرتے ہوئے شدید فضائی بمباری کی زد میں آکر نصیب اللہ اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ دشمن سے لڑتے ہوئے دھرتی ماں پر قربان ہوگئے اور اپنے خون سے مزاحمت کو زندہ رکھتے ہوئے نوجوانوں کے لئے مثال بنے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں