شہدائے مرگاپ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔بی ایس او آزاد

400

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں شہدائے مرگاپ شہید چیئرمین غلام محمد، لالامنیر اور شیر محمد بلوچ کو ان کی لازوال جدوجہد اور قربانی پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ شہدا کے لہو نے بلوچ قومی تحریک کو جلا بخشتے ہوئے ہزاروں بلوچ نوجوانوں کو اسی فلسفہِ جدوجہد پر کاربند بنایا جو آج بھی آزادی کے مشعل کو جلائے ہوئے ہیں۔ شہدا کی جدوجہد کے بدولت بلوچ قومی تحریک آج تمام شعبوں میں فعال ہو کر ایک واضح سمت لیے آزادی کی جانب گامزن ہے۔

انہوں نے کہا شہید چیئرمین غلام محمد سیاسی بصیرت سے لیس بلوچ قومی رہنما تھے۔ طالبعلمی کے زمانے میں انھوں نے نوجوانوں میں قومی شعور اجاگر کرنے اور بلوچ نوجوانوں کو واضح سیاسی سمت دینے کےلیے بی ایس او کے پلیٹ فارم سے جدوجہد کی اور طلبا سیاست میں نہایت ہی فعال کردار ادا کیا۔ شہید چیئرمین غلام محمد نے طلبا سیاست سے فارغ ہو کر بی ایس او کے دیگر رہنماؤں کے برعکس بلوچ قومی جدوجہد کےلیے مضبوط بنیادیں بنانے کی سعی کی جس کےلیے اُن کا نصب العین تنظیم اور پارٹیوں کا قیام تھا۔انھوں نے اپنی سیاسی بصیرت کے بدولت بلوچ نوجوانوں کو پارٹی اور تنظیموں کے بینر تلے یکجا کرنے اور بلوچ قومی جدوجہد کو منظم شکل دینے کی انتھک کوشش کی اور آج اسی جدجہد کا ثمر ہے کہ بلوچ قومی تحریک ایک واضح سمت لیے منظم اور سائنسی بنیادوں پر آئے روز ترقی کی جانب گامزن ہے۔

انہوں نے کہا کہ شہید چیئرمین غلام محمد بلوچ قومی تحریک کے سرخیل رہنما تھے اور ان کا شمار موجودہ قومی تحریک میں آزادی کے اولین علمبرداروں میں کیا جاتا ہے۔انھوں نے ریاست کی جانب سے حائل تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے بلوچ عوام کی تربیت کےلیے جلسہ جلوس اور ریلیوں کا انعقاد کیا اور بلوچ عوام کو قومی تحریک کا حصہ بنانے کی انتھک کوشش کی۔انھوں نے اپنی سیاسی بصیرت کو استعمال کرتے ہوئے مختلف دھڑوں اور گروہوں میں بٹے جہدکاروں کو ایک لڑی میں پرونے کی جدوجہد کی۔ سامراجی اور قبضہ گیر ریاست کی جانب سے چیئرمین غلام محمد بلوچ کی سیاسی جدوجہد ایک آنکھ نہ بھا سکی۔ ریاست نے انھیں پابند و سلاسل کیا اور مختلف اذیتیں دی لیکن شہید اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے نہ ہٹے۔ تمام تر حربے آزمانے کے باوجود شہید نے اپنی سیاسی جدوجہد جاری رکھی۔بالآخر ریاست نے اپنا آخری وار استعمال کرتے ہوئے 3 اپریل 2009 کو شہید غلام محمد کو ان کے دو ساتھی لالا منیر،شیر محمد بلوچ کے ساتھ جبری طور پر لاپتہ کیا اور بعدازاں اُن کی مسخ شدہ لاشیں مرگاپ کیچ کے مقام پر پھینک دی۔

اپنے بیان کے آخر میں انہوں نے کہا کہ شہدا کا فلسفہِ قربانی ایک آزاد قوم اور خومختار وطن کا وارث ہونا ہے۔ہم شہدا کے عظیم قربانی پر انھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور اس دن کی مناسبت سے اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ بلوچ وطن کی آزادی کےلیے جدوجہد جاری رکھی جائے گی اور اس عمل میں کسی بھی قربانی سے بھی دریغ نہیں کیا جائے گا۔