سماج میں عورت کا کردار – نجیب بلوچ

712

سماج میں عورت کا کردار

تحریر: نجیب بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ماضی کے اسباق اور مورخوں پر ایک نظر دہرایا جائے تو ہمیں سماج کے اندر بہت ساری قسم کی پیش رفت و مسائل ملیں گے۔ جس میں معاشرتی ظلم و زیادتیاں جس میں ہر طرح کے القابات سے عورتوں کو نوازتے ہیں۔ اگر ہم ایک تاریخی جائزہ عربوں کی تاریخ کا لیں ان کی مثال دنیا کے لیئے بلکہ ایک تاریخی مشاہدہ ہوگا اُس دور میں یہ ایک کلچر ایک روایتی صورت کی مانند جانا جاتا تھا جس میں کسی گھر میں لڑکی کا پیدا ہونا ایک عذاب بن جاتا تھا۔ اگر کہیں پہ لڑکی کا جنم ہوتا تو فوراً اس کو ختم کرنا اس وقت کا ایک رواج بن گیا تھا کیونکہ عورت دنیا کی وہ اشرف المخلوقات ہے جس کو انسان کے ہاں ہر دور میں مردوں کی نسبت  کم سمجھا جاتا تھا لیکن اگر اسی پس منظر کا ہم ایک جائزہ لیں تو عورت کا کردار دنیا کے ہر مظلوم و محکوم قوموں کے لیئے ایک مثالی کردار رہا ہے۔ اگرچہ ہم عورت کی تاریخ سے واقفیت حاصل کریں ہمارا وجودیت جب دنیا میں آگیا ہے جس میں بی بی حوا کا نام سر فہرست ہے کیونکہ انسان اپنی ارتقائی، ابتدائی اور مجموعی آباد عورت کے پاک بطن کو بخشتی ہے جس میں عورت کو ذیل رکھنے کا دنیاوی دستور حاصل ہے۔ بجانب اس ساری کہانی میں اگر عورت کو معاشرے کے اندر کیوں قید کر رکھا جاتا ہے آیاں وہ انسان کے زمرے میں نہیں آتی ہے؟ یا عورت اس سماج کے اندر برابری کا حق ادا نہیں کرسکتی اگر وہ ساری چیزوں میں مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی رہتی ہے تو عورت کو زمانہ جاہلیت سے لیکر آج تک قدامت پرستی کا مار کیوں پڑتا ہے۔

اردو ناولوں میں ابتدا سے ہی عورتوں کے مسائل کو مختلف زاویوں سے پیش کیا گیا ہے۔ جدید تعلیم کے اثرات کے سبب انسانی سماج میں جو بتدریج تبدیلیاں رونما ہوئیں، ان کا عکس بھی ناولوں میں دکھائی دیتا ہے۔ تہذیب کے ٹکراو اور جدید طرز زندگی کے نمونے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ گھریلو حادثات و واقعات اور خاتون خانہ کی حقیقی روداد بھی ناول کا اہم حصہ ہیں۔ جس میں عورتوں کی اصلاح کی ضرورت اور اہمیت کا شعور سب سے زیادہ تھا۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ جاگیر دارانہ، زمیندارانہ دور کی اخلاقی پستی اور معاشرتی انحطاط کے اثر سے طبقہ نسواں بھی محفوظ نہیں ہے اور یہی دور کا فقدان آج کے اس بدلتی گلوبلائزیشن میں کم نہیں ہو پا رہا ہے۔

یہی رائے عمل اور دور حاضر اور ماضی کی پیچیدگیوں کا ہم اپنے سماج میں مشاہدہ کرے تو اس میں بہت ساری مورخیں عورت کو ایک عظیم مقام میں یاد کرتی ہے جس میں بلوچ عورت کی پاک دامنی اور مہمان نوازی کا ذکر قابل تحسین تصویر پیش کیا جاتا ہے اور بلوچ سماج کے اندر بانڑی، سمی بہت سارے شیر زالوں کا ذکر سرفہرست آسکتا ہے جس میں جنگ کے میدان میں اپنے بھائیوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا رہنا، شاہ ایران کے فورس کو مخلتف حکمت عملیوں کے ذریعے شکست دینا، یہ مورخوں داستانوں کی ایک اعلیٰ مثال ہے اور ہمیشہ عورت کو پیار کی نگاہ میں دیکھنا سماج کے اندر اس کی عظیم رتبہ کو پیش کرنے کا مترادف ہے اگر عورت کو معاشرے کے اندر پیار کی نگاہ سے دیکھنا چاہوں گے وہ ہمیشہ کے لیئے قدر کے زنجیر میں آپ کے ساتھ منسلک رہے گی۔ دنیا میں عورت کے محبت کی بہت ساری داستانیں ملیں گے لیکن بلوچ سماج میں ہانی کا نام ایک عظیم داستانی رُتبے سے یاد کیا جاتا ہے۔ جب شئے مرید کی محبت میں خود کو چاکر کی زنجیروں سے نجات دلانے کے لیے اپنی زندگی کو چھوڑکر ویرانوں کا رخ کیا۔

لیکن عورت ہر دور میں سماج کے اندر کی جہالت، ظلم، قدامت پرستی، درندہ سپوتوں کے یلغار کا نشانہ بن چکی ہے اور اسں دور میں یہ عمل جاری ہے۔

پریم چند کے ناولوں میں عورت کے تمام ناگفتہ حالات و کوائف کا نقشہ ملتا ہے، وہ شادی بیاہ کے معاملے میں نہ صرف یہ کہ عورتوں کی آزادی رائے کے قاتل نظر آتے ہیں بلکہ وہ اس بات کی شدید حمایت کرتے تھے کہ شادی سے قبل عورت اور مرد کو تبادلہ خیال کا پورا موقع ملنا چاہیے۔ ان کے نزدیک شادی ایک معاہدہ ہے جس کی کامیابی کا انحصار فریقین کی رضامندی پر ہے، پریم چند کے ابتدائی ناول زیادہ تر سماج کے مسائل یعنی بیوہ، طوائف، تعلیم اور تعداد ازدواج کے مسئلے پر مبنی ہے اور ان میں اصلاح کا پہلو زیادہ نمایاں ہوتا تھا لیکن بعد میں ناولوں میں انہوں نے عورت کو ایک سیاسی اور سماجی کارکن کی حیثیت سے بھی فعال دکھایا۔

عورتوں کا کردار سماج میں ایک نہایت عبوری حیثیت کا حامل ہے جس میں گھریلوی مسائل کی جانچ پڑتال، گھر کی کفالیت اور سماجی کاموں میں عورت ہمیشہ صفحہ اول کا کردار ادا کرتی ہے اسی طرح بنیادی تعلیم اگر کسی بچے کو ملتا ہے وہ ماں کے گود میں جنم دن سے لڑکپن تک اور سب ذمہ داریاں مردوں کی نسبت عورتوں کے ہاں زیادہ ذمہ داریاں سونپی جاتی ہے جس میں عورت اپنی بسات کے مطابق اچھے سے اچھی طرح نبھاتی ہے لیکن اکثر ہم دیکھتے ہیں گھریلو تنازعات میں عورت کا طلاق اس پر مار پیٹ، قتل کا امکان اکثر زیادہ ہوتا ہیں کیونکہ یہی چیزیں مسلسل ایک ترتیب بن کر آرہے ہیں لیکن اس سائنسی دور میں شعوری دور میں عورتوں نے حیثیت حاصل کرلی ہے وہ آئندہ اس چیز کے خلاف بغاوتیں کرتی رہیں گے۔

اسی طرح ہم سماج میں عورت کے کردار پر بات کریں اس میں آہستہ اہستہ بہت ساری چیزیں وضاحتی حیثیت سے مل رہے ہیں۔ سماج  میں عورت کا کردار اور حقوق اس کی جائز مطالبات عورت کو ایک عظیم انسان کی حیثیت سے دیکھنا چاہیے تاکہ معلوم ہو کہ اس کے حقوق کیا ہے اس کو ہمارے مذہب نے کیا حیثیت دی ہے ور اس کی آزادی کیا ہے اسے دنیا میں رہنے کے لیے اور کس طرح احترام دی جاتی ہے۔ کیا ہم نے ان چیزوں کے اوپر غور کیا ہے؟ نہیں عورت کو ایسی مخلوق کے طور پر دیکھا جانا چاہیے جو بلند انسانوں کی پرورش کرکے اور انہیں معاشرے کے اندر قدر کی نگاہوں میں دیکھ سکتے ہیں اور انہیں انسانیت کے  فلاح و بہبود اور سعادت و کامرانی کی راہ ہموار کر سکیں، تب اندازہ ہوگا کہ عورت کے حقوق کیا ہیں اور اس کی آزادی کیسی ہونا چاہیے۔ عورت کو خاندان اور کنبے ہر بنیادی عنصر وجودی حیثیت سے دیکھنا پڑتا ہے، ویسے کنبہ تو مرد اور عورت دونوں سے مل کے تشکیل پاتا ہے اور دونوں ہی اس کے معرض وجود میں آنے اور بقاء میں بنیادی کردار کے حامل ہیں لیکن گھر کی فضا کی طمانیت اور آشیانے کا چین و سکون عورت اور اس کے زنانہ مزاج پر موقوف ہے۔ عورت کو اس نگاہ سے دیکھا جائے تب معلوم ہوگا کہ وہ کس طرح کمال کی منزلیں طے کرتی ہے اور اس کے حقوق کیا ہیں لیکن ہم نے ہر وقت سماج کے اندر عورتوں کی حقوق پر ڈھاکہ ڈھالا ہے عورت کو کم شرف کیا ہے لیکن آج کے جدید حیثیت سے وہ ہماری اصل وجودیت کو چیلنج کرسکتے ہیں کیونکہ انہیں غلام بنا کر رکھا ہے اور غلام اپنی آزادی کے لیئے کس بھی وقت آواز بلند کرتا ہے چاہے وہ محکومیت کی شکل میں ہو لیکن اس چیز کا انجام دیر تک نہیں چل سکتا اور آج کل کے دور میں یہ پیشرفت ہوئی ہیں۔

آخر میں یہ کہنا چاہتا ہوں اگر ایک سماج کا وجود زندہ ہے تو اس میں عورتوں کی بھی حصہ داری ہے۔ عورتوں نے سماج کی بہتری کے لیئے اپنا وقت خرچ کیا ہے، کہتے ہیں تالی ایک ہاتھ سے نہیں دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے اگر عورت مرد کے ساتھ نہیں ہوتا تو مرد دنیا کی وجودیت حاصل نہیں کرتا لہٰذا ہر عورت کو معاشرے کے اندر قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے اسے عزت دینا چاہیے اور برابری کا حق ادا کرنا چاہیے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں