ذہنی ٹارچر
تحریر: اسلم آزاد
دی بلوچستان پوسٹ
ذہنی ٹارچر انسانی حقوق کی بنیادی خلاف ورزی ہے، انسانی تشدد ہیومن رائٹس وائلیشن ہے۔ ایک انسان کو ٹارچر کرنے کی دو اقسام ہوتے ہیں، ایک جسمانی ٹارچر اور دوسرے کو ذہنی ٹارچر کہتے ہیں۔
ویسے انسان کو اذیت دینے کا رسم ہزاروں سال پرانا ہے، عہدے قدیم میں لوگوں کو جسمانی طور پر تشدد کرکے انکا استحصال، خرید و فروخت، یا قید و بند کر کے مشقت لیا جاتا تھا، عہدے جدید میں سائنس و ٹیکنالوجی کے دریافت کے بعد انسانوں کو اذیت دینے یا ذہنی غلام بنانے کے لیے جدید نفیساتی تیکنیک استعمال ہورہے ہیں۔
ذہنی ٹارچر دینے کا بنیادی مقصد انسان کے قوت مدافعت کو ختم کرنا، اعصابی شکست دینا، ذہنی دباؤ میں ڈالنا، انفارمیشن نکالنا، مورال ڈاؤن کرنا، غیر انسانی طریقے سے ٹریٹ کرنا ہے، انسان کے انسانیت و اخلاقیات کو ختم کرنا، یہ سب سامراجی سازش ہیں جو کہ جنگی حالات کے دوران بطور نفیساتی تیکنیک استعمال ہوتے ہیں۔
ذہنی ٹارچر کے اثرات جسمانی ٹارچر کے اثرات سے انتہائی زیادہ ہیں کیونکہ جسمانی ٹارچر کے نشانات صرف انسانی جسم تک محدود ہوتے ہیں، جسمانی ٹارچر کو آسانی سے علاج کیا جاسکتا ہے، اور عدالت میں نشانات بطور ثبوت پیش کیے جاسکتے ہیں لیکن ذہنی اذیت کا کوئی نشان نہیں ہے اسکی نشانات فرد کی روح پر ہوتے ہیں اور ان کا علاج سالوں سال تک مشکل نہیں بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ ذہنی ٹارچر انسان کے پورے نفسیاتی ساکھ یا شخصیت کو متاثر کرتا ہے، جس کے اثرات پوری زندگی انسان کی روح کو ڈسٹرب کرتے رہتے ہیں۔
جب ایک سامراج ریاست ایک محکوم قوم پر زبردستی قبضہ کرتا ہے تو وہاں کے مقامی لوگوں کو ذہنی شکست دینے یا ذہنی غلام بنانے کے لیے ذہنی ٹارچر کو بطور نفسیاتی ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے، تاکہ مظلوم لوگ زدکوب ہوجائیں اپنی تمام سیاسی، سماجی، معاشی، نظریاتی اور علمی سرگرمیوں سے دست بردار ہوجائیں، سامراج کے خلاف مزاحمت نہ کریں۔
سامراج ریاست جب بزور طاقت مظلوم قوم کے نوجوانوں کے نظریاتی و انقلابی شعور کو دبانے میں ناکام ہوتی ہے پھر وہ نفسیاتی حربے کا استعمال کرتا ہے، مطلب وہ مظلوم قوم نوجوان نسل کا ذہنی ٹارچر کرنا شروع کرتی ہے تاکہ وہ خوف و ہراس کا شکار ہوجائیں وہ اپنی تمام سیاسی و انقلابی سرگرمیاں چھوڑ دیں، ذہنی غلام ہو جائیں، میرے تابعدار ہوجائیں لیکن یہ سامراج کی بھول ہے۔
بلکل اسی طرح پاکستانی سامراج ایک سوچے سمجھے منصوبہ بندی کے تحت بلوچ قوم کے زیر تعلیم بلوچ طلباء کے خلاف ذہنی ٹارچر کے پالیسی کو بے تحاشا استعمال کررہا ہے تاکہ تمام بلوچ طلباء کے دل و دماغ میں ریاست کی خوف و ڈر پیدا ہو۔ ہاں اس حقیقت سے خاص کر بلوچ طلباء سے کوئی انکاری نہیں ہے کہ ریاست کی نفیساتی ٹارچر پالیسی نے عارضی کامیابی حاصل کی ہے جسکی وجہ سے چند بلوچ طلباء خود کو ذہنی طور پر غیر محفوظ و گھبراہٹ محسوس کررہے ہیں۔
بلوچ قوم کو ذہنی طور پر ٹارچر کرنے کے لیے ریاست مخلتف نفیساتی حربے استعمال کررہی ہے، مثال کے طور پر فون یا میسیج کرکے دھمکانا، ڈرانا، اغواء یا موت کی دھمکی دینا، خوف ہراس پیدا کرنا، شخصی پروفائل کرنا، غیر قانونی انٹروگیشن کرنا، بلاوجہ ہراساں کرنا، ذاتی سوال کرنا، فیمیلز کو بلیک میل کرنا، نفسیاتی دباو کےعلاوہ ہزاروں ایسے نفسیاتی ہتھکنڈے استعمال ہورہے ہیں جو نہ صرف بلوچ قوم کے عزت نفس کو سراسر مجروح کررہے ہیں، غیراخلاقی سلوک کررہا ہے، جس کو عام الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا ہے، اس درد ناک کیفیت کو صرف وہ انسان محسوس کرسکتے ہیں جنہوں نے بذات خود ٹارچر سیل یا ریاست کی ذہنی اذیت کا سامنا کیا ہے۔
لیکن ریاست کو یہ علم ہونا چاہیے کہ جن باشعور نظریاتی طلباء و انقلابی کارکنوں نے موت کا خوف اپنے دماغ سے ختم کیا ہے ان کو پاکستان جیسے جعلی ریاست نہیں بلکہ دنیا کی کوئی بھی نیوکلئر طاقت ان کو نظریاتی و گوریلا سرگرمیوں سے روک نہیں سکتا ہے۔
جب ایک سامراج کو یہ محسوس ہو کہ بزور طاقت کی پالیسی پر قوم کے نوجوانوں کے سیاسی شعور کو دبانے یا شکست دینے میں ناکام ہورہا ہے پھر وہ نفسیاتی حکمت عملی کا استعمال کرتا ہے مطلب وہ نوجوانوں کو ذہنی ٹارچر کرنا شروع کرتی ہے تاکہ طلباء و مزدور طبقات میں خوف و ہراس کا شکار ہو وہ اپنی سیاسی یا نظریاتی سرگرمیاں چھوڑ دیں، ذہنی غلام ہو جائیں لیکن یہ ریاست کی بھول ہے۔
ہاں اس میں کوئی ہرج نہیں ہے کہ ریاستی ٹارچر کی وجہ بہت سے بلوچ قوم میں بہت سے نفیساتی بیماری مثال کے طور پر خوف، اسٹرس، اینذائٹی، ڈپریشن کے پھیل گیا ہے۔ بلوچ قوم کے طلباء ذہنی دباؤ کی وجہ سے وہ اپنے سیاسی و تعلیمی سرگرمیوں پر متوجہ ہونے کے قابل نہیں ہیں بلکہ نفسیاتی طور پر مفلوج و معذور ہورہے ہیں۔
جو بلوچ طلباء اپنے لاپتہ لوگوں کی بازیابی کے لیے جہدوجد کررہے ہیں یا احتجاجی کیمپ کا دورہ کرتے ہیں، ریاست ان لاپتہ افراد کو بازیاب کرنے کے بدلے میں طلباء کو متواتر دھمکیاں دے رہی ہیں، جس کی وجہ سے طلباء شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔
یہاں یہ بات بھی واضح ہو کہ تمام بلوچ قوم کے طلباء ریاست کی نفسیاتی حکمت عملی سے واقف ہیں لیکن وہ طلباء کریں تو کریں کیا، وہ پہلے سے متاثرین (victimized) ہیں؟ کیونکہ یہ طلباء اور ان کے فیملی ذہنی طور پر ایک کربناک صورت حال سے گذر رہے ہیں لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ بلوچ قوم ذہنی طور پر شکست خوردہ ہے بلکہ وہ اپنی نفسیاتی دفاع کرنے کیلیے مخلتف اقسام کے نفسیاتی میکینزم تشکیل (تھراپی) دے کر اپنی ذہنی دباؤ دور کرنے اور وہ ریاست کی اس ذہنی اذیت سے مقابلہ کرنے کی برابر کوشش کررہے ہیں۔
1۔ذہنی ٹارچر متعلق مطالعہ کرنا، اس کے مقصد و نوعیت کو شعوری طور پر سمجھنا، اپنے آپ کو ذہنی تشدد پر قابو پانے کے لیے پہلے سے تیار کرنا۔
2۔ پوبیا یا اینذائٹی سے گھبرانا نہیں سامنا کرنا ہے۔
3۔ اسٹرس منیجمنٹ اسکیل۔
4۔ کتھارسس کرنا۔
5۔ مراقبہ کرنا۔
6۔ Narrative Exposure Therapy
7۔ cognitive behavioral therapy
8۔ progressive muscles relations techniques
9۔ (systematic desensitization) behavioral therapy
10۔Rational emotive behavioral therapy
اگر ریاست یہ سمجھتی ہے کہ ایسی نفیساتی حربے استعمال کرنے سے بلوچ قوم کے طلباء طبقات یرغمال ہونگے، وہ اپنی تعلیمی و علمی سرگرمیاں ترک کرینگے پھر یہ ریاست کی بھول ہے، جو بلوچ طلباء حصول علم کے لئے اپنے گھر بدر ہیں، پھر یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ بلوچ طلباء کو پورے ملک کے تعلیمی اداروں میں علمی سرگرمی جاری رکھنے دیں، ریاست اپنی آئین کی پاسداری کریں، تمام بلوچوں طالب علم کو تحفظ فراہم کریں۔
جب ریاست بلوچ قوم کے طلباء کو تحفظ دینے میں ناکام ہوگی تو بلوچ قوم کے تمام مکاتب فکر کے لوگوں کو یہ قانونی حق حاصل ہے کہ ریاست کی مصنوعی آئین کو چیلینج کرکے ریاست کے خلاف مسلح بغاوت کریں۔ پاکستانی ریاست بلوچ قوم سے ٹیکس بھی وصول کرتی ہے اور بلوچ قوم کو تحفظ بھی فراہم نہیں کرتا ہے۔ ریاست کو ہوش کے ناخن لیکر اپنی نفسیاتی ٹارچر (psychological torture) کے پالیسی کو مکمل بند کرنا ہوگا۔ پاکستانی ریاست بلوچ قوم کے سرمایہ “طلباء” کے لگاتار ذہنی ٹارچر سے پرہیز کریں ورنہ اسکی سنگین نتائج ہونگے جو کہ ریاست کی بنیادی ڈھانچے کےلیے سخت نقصاندہ ہونگے۔
اگر ریاست کی غیر انسانی پالیسی بلوچ قوم کے خلاف اسی طرح سخت ہونگی، طلباء کو اغواء کرکے عقوبت خانوں میں بند کرکے ذہنی ٹارچر کرنے دے، طلباء طبقات کو اپنی نظریاتی سمت واضح کرنے میں آسانی ہوگی کہ اغواء ہونے، عقوبت خانوں میں ناکردہ گناہوں کی اذیت کاٹنے سے بہتر ہے کہ یہ ظالم ریاست صرف بندوق کی زبان سمجھ سکتی ہے تو بلوچ قوم کے طلباء کے لیے آخری آپشن بلوچ قومی آزادی کی تحریک میں شامل ہونا ہوگا تاکہ وہ غلامی کی لعنت کو مستقل طور پر جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیں، ایک آزاد اور خودمختار انسان کی طرح زندگی جی لیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں