بیٹھک!
تحریر: عمران بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
میں مہلب
مہلب دین بلوچ
اچھا
اچھا کیا تم بھی اپنا نام بتاو؟
میں! میں بے نام بلوچ
اب یہ بھی کوئی نام ہوا، اگر واقعی تم چاہتے ہو کہ ہم آپس میں بیٹھ کر گفتگو کریں تو تمہیں اپنا نام بتانا ہوگا۔
تم بھی ناراض، وہ بھی ناراض، نام بھی ناراض، اب میں کیا بولوں۔
مطلب؟
مطلب یہ کہ جب سے آپ لوگوں کے اس دنیا میں آیا ہوں بابا کو اور نام دونوں کو نہ دیکھا اور نہ سنا ہے اپنے بابا اور اپنے نام دونوں کا نہیں پتا۔
تو پوچھا کسی سے اس بارے میں؟
بھلا اب میری بات کون سنے گا کون توجہ دیگا، پیدا ہوتے ہی یہی بتایا گیا کہ یہاں بلوچ اور بلوچستانی کی کوئی نہیں سنتا، اب نجانے یہ دونوں کون ہیں اور سب سے پہلے ان دونوں کا پتا کروں یا اپنے نام اور اپنے بابا کا پوچھوں؟
یار تم پہیلیاں مت بجاؤ، مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آرہی اور میں کچھ جلدی میں بھی ہوں یونیورسٹی جانا ہے میرے کلاسز ہیں گھر کے بھی کام ہیں پھر پریس کلب بھی جانا ہے اور بھی بہت سے کام نمٹانے ہیں۔
اچھا چلو میں تمہیں ایک اور دلچسپ بات بتاتا ہوں پیدائش کے بعد اپنے کانوں میں میں نے اذان کے بجائے جو پہلا لفظ سنا وہ بھی پریس کلب ہی تھا۔
باتیں تو بہت کی اب نام بتاؤ گے یا پھر میں واقعی میں چلی جاؤں؟
ارے ارے رکھو ذرا بیٹھو میرے پاس تم سے باتیں کرکے مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے مزہ آرہا ہے اور یقین کرو اپنائیت سا لگ رہا ہے جیسے کے ہم دونوں کا غم ایک ہو۔
اب تمہیں ان ساتھ مہینوں میں کونسے غم نے آگیرا ہے؟ غم تو بس میرے ہیں۔
ہاں تمہارے غم کا معلوم ہے میری امی نے بتایا ہے مجھے، تبھی تو کہتا ہوں ہم دونوں کا غم ایک ہی ہے۔
چلو اب نام بتاؤ؟
نام۔۔۔ بے نام بادشاہ!
اب یہ کیسا نام ہے؟ اس عمر بھی خواب بڑے دیکھتے ہو، نام بتاتے ہو یا میں واقعی چلی جاو؟ آخری بار پوچھ رہی ہوں۔
اچھا جو میرا اور تمہارا تعلق ہے وہ دراصل بہت پرانا ہے اور درد کا تکلیف کا تعلق ہے اور ایسا تعلق بہت مضبوط ہوتا ہے تو کیا میں تمہیں بہن کہہ سکتا ہوں؟
یہ کیسا بھائی بہن کا رشتہ ہے، مجھے تمھارا نام ہی نہیں معلوم اور تم بتانا بھی نہیں چاہتے۔
یقین مانو میں اپنے بارے میں خود نہیں جانتا تو تمہیں کیا بتاؤں کیونکہ میں نے پہلے ہی تمہیں یہ بتادیا تھا کہ پیدا ہونے کے بعد بچے کی کان مین اذان دی جاتی ہے فنکشنز ہوتے ہیں بچہ اپنے والدین کو اکھٹا دیکھ کر بہت خوش ہوتا ہے والدین بھی بچے کو خوش دیکھ کر پھولے نہیں سماتے اور اس طرح نام رکھا جاتا ہے ۔
ہاں تو؟
تو یہی کہ میں نے ایسے فنکشنز دیکھے نا اب تک باپ دیکھا، اب جبکہ میں ساتھ مہینے کا بچہ ہوں، نام بھی نہیں ملا مجھے ، کہتے ہیں ہمارے رسم میں باپ ہی بچے کا نام رکھتا ہے مگر میں نے اپنے پیدائش کے بعد جو پہلا فنکشن دیکھا وہ احتجاج رونا دھونا نعرہ بازی تھا اور جو فنکشن حال دیکھا وہ کسی ماما کی جھگی تھی جو سڑک کنارے شدید گرمی میں لگا ہے مجھے وہاں لیجآیا گیا۔ بس احتجاج۔۔۔ غائب۔۔۔۔ بازیاب۔۔۔ پیدائش کے بعد ایسے گانوں سے میرا واسطہ پڑا ہے۔ ویسے یہ لوگوں کو اٹھانا غائب کروانا کس کا رسم و روایات ہیں؟
واقعی میں کچھ حد تک نہیں بلکہ مکمل ہم ایک جیسے اور اپنے لگتے ہیں، مگر اب تو نام بتاؤ؟ اخر میں تمہیں کس نام سے پکاروں؟
ہاں نام! میرا نام۔ گمشدہ فیاض سرپرہ کا بیٹا۔ اچھا رو مت ویسے معاشرے کی مجبوری ہے اس لئے لوگ مجھے علی بلوچ پکارتے ہیں، خاص کر نرگس فیاض مجھے علی کہہ کر پکارتی ہے۔
ارے بھائی نرگس تمہاری ماں ہے اس کا نام تو احترام سے لو۔
کیا احترام جب سے پیدا ہوا ہوں اسے بس غمگین اور روتا ہوا ہی پایا ہے۔ میں نے جب اپنا نام اور اپنے باپ کے بارے میں پوچھا تو جواب ملا میرے پیدا ہونے سے دو دن پہلے ہی میرے والد کو اٹھا لیا گیا ہے۔ ویسے یہ اٹھا لیا گیا ہے کیا ہوتا ہے؟ ماں روزانہ میرے والد کو بازیاب کروانے کے لئے احتجاج کرتی ہے مسنگ پرسنز کے کیمپ کے چکر لگاتی ہے ۔ ویسے یہ مسنگ پرسنز کیمپ، احتجاج، غائب یہ سب کیا ہیں؟
ایک تو تم سوال بہت پوچھتے ہو، تمہیں معلوم ہے ہماری قوم کی تاریخ میں میر علی محمد مینگل نام کے ایک بہت بڑے ہیرو گذرے ہے، اس حساب سے تو تم کو بہت خوش ہونا چاہیے کیونکہ بڑا پیارا نام ہے تمہارا ۔ ہیرو!
اچھا اب تو تم مطمئن ہو کہ میں علی بلوچ مسنگ پرسن فیاض علی کا بیٹا اور نرگس فیاض کا بیٹا بھی اور دوست بھی۔
تم کون ہو؟
میں نے تو شروع میں ہی بتایا تھا کہ میں مہلب دین بلوچ۔
تو کیا تمہیں پیدائش کے بعد نام ملا تھا؟
ہاں ہاں بالکل اسی طرح جیسا کے ہمارے رسم و رواج میں ہے، یعنی پیدائش کے چھٹے دن۔
اس طرح تو میری باری پہ باپ کے ساتھ ساتھ میرا رسم روایات نام فنکشن سب اٹھا لئے گئے ہیں۔ اچھا تمہارے والد صاحب؟
میں بلوچ مسنگ پرسن ڈاکٹر دین محمد کی بیٹی ہوں۔
ہاں میں نے آپ کے والد کی تصویر ماما کے کیمپ میں دیکھا ہے، اس حساب سے ہم دونوں کے باپ مسنگ ہیں پھر میرا نام کیوں نہیں رکھا گیا اور تمہارا نام باقاعدہ طور پر رکھا گیا ہے؟
وہ اس لئے کہ میرے بابا کو میری پیدائش کے تیرہ سال بعد غائب کیا گیا اور تمھارے بابا کو تمہارے پیدائش سے دو دن پہلے ۔
مطلب غم ایک، واقعات ایک جیسے بس وقت الگ، تو تمہارے بابا اب کہاں ہے؟
تیرہ سال گذر جانے کے بعد بھی وہ غائب ہے۔
ان کو کس نے غائب کیا ہے؟
انسانیت کے دشمنوں نے۔
ہاں واقعی اس دن عدالت میں جج صاحب نے بھی میرے والد کے کیس میں یہی کہا تھا کہ جس نے میرے بابا کو اٹھایا ہے اللہ ان کے بچوں کو بھی ایسا ہی رلائے، مگر میں نے آمین نہیں بولا کیونکہ میں وہاں بد دعا لینے تو نہیں گیا ہو مجھے تو بقول میری امی جان کے انصاف چاہیے۔
اچھا تو تم عدالت بھی گئے تھے؟
ہاں تو ، میں ہر پیشی پر جاتا ہوں وہاں روتا ہوں اور شور کرتا ہوں تاکہ عدالت میں احتجاج کر سکوں۔
میرے گھر والے بھی عدالت، پریس کلبز ہر جگہ چکر لگاتے ہیں، لیکن میں ان کے ساتھ کم از کم عدالت اور سیاستدانوں کے پاس نہیں جاتی ماسوائے پریس کلبوں کے۔
ایسا کیوں؟
اس لئے کے بات شرم حیا اور تہذیب کی ہوتی ہے جو زندہ انسانوں کو دن دھاڑے مارے اٹھائے غیب کرے، لوگوں کو زندہ غائب کرنے کا الزام اس پر ہو اور وہ ٹس سے مس نہ ہو اس سے کیا توقع؟
ہاں یہ بات بھی ٹھیک ہے، ایسا کب تک چلے گا؟
دیکھو ہماری نسلیں اس میں چلی جاتی ہیں ، ایک ایسا نسل جو پیدا ہوکر بوڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے جوانی کا عمر دیکھتا ہی نہیں ہے میں میری بہن تمہاری ماں سمیت اس کی بہت سی مثالیں ہیں، مطلب یہ کہ وہ بات تو تم نے سنا ہوگا کہ جوانی کے دن ہیں، یا ابھی تو جوانی ہے؟
ہاں بالکل سنا ہے۔
تو ہماری نسل کے بہت سے بچے پیدا ہوکر فوراً بڑے ہو جاتے ہیں، نوجوانی ، جوانی کے دنوں کی خوشیاں، مذاق، زندہ دلی دیکھتے ہی نہیں۔
ہاں ایسا میرا لمہ بھی بولتی ہے ۔ مگر اب کیا؟
اب یہی کہ ادھر ہم پہلے سے گم شدہ اپنے پیاروں کے لئے احتجاج پر بیٹھے ہیں، ادھر سونا چاندی اور قیمتی پتھر اگلنے کے بعد چاغی ماشکیل اور نوکنڈی لاشیں اگل رہی ہیں۔
باقی سب خیر ہے۔۔۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں