بلوچ قومی تحریک اور ایک انقلابی قیادت کی ضرورت ۔ سراج بلوچ

930

بلوچ قومی تحریک اور ایک انقلابی قیادت کی ضرورت

تحریر: سراج بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچوں کی تمام تر تاریخ مزاحمت کی تاریخ رہی ہے۔ بلوچ وطن پر سکندر و سندان کی یلغار سے لے کر سر پر ناڑہ باندھنے والے عربوں، مغلوں، پرتگیزیوں فرنگی اور آج یہ سب اسٹینڈر فرنگیوں کے غلام ان سب کی یلغار، لوٹ مار اور پھر ان کی مخالفت میں بلوچ کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا، اپنے وطن کا دفاع کرنا حملہ آور غاصب کو پیچھے دھکیلنا اور اس جنگ میں ٹوٹ کر بکھرنے سے لے كر واپس نئے سرے سے متحد متحرک ہونا یہ بھی ایک تاریخی سلسلہ ہے۔ جس میں پرتگیزیوں کے خلاف حمل، جیٸند، فرنگیوں کے خلاف شہید محراب خان اور موجودہ تحریک میں بے شمار سورماؤں کو وطن کی مٹی پر امر ہوتے دیکھ رہے ہیں۔

آج اگر ہم سائنسی بنیادوں پر بلوچ قومی تحریک کا جائزہ لیں تو انگریز سامراج کے خلاف شروع شروع میں ہماری جنگوں کی بنیاد قبائلی و علاقائی طرز پر قائم تھی یہ جنگيں ہم نے تو خوب لڑیں لیکن ایک اصولی منظم تنظیمی ساخت نہ ہونے کی وجہ سے ہم ان جنگوں میں ایک ترقی پسند سماجی انقلاب برپا نہ کر سکے۔
لیکن ہم 1920 کی وسط میں میر عبدالعزیز کرد کی انقلابی کاوشوں کی بدولت ینگ بلوچ نامی سیاسی تنظیم کی بنیاد رکھتے ہوئے دیکھتے ہیں جو کہ بعد میں عوامی حلقوں میں مقبول ہونے کے بعد ینگ بلوچ سے انجمن اتحاد بلوچاں سے مشہور ہو جاتا ہے۔ اور پھر 1929 کو میر یوسف عزیز مگسی جیسے سامراج سردار و جاگیردار دشمن اس جماعت کے ساتھ جڑ جاتے ہیں۔

پھر ہم دیکھتے ہیں اس سیاسی جماعت کے سائے تلے بلوچستان کے تمام تر مظلوم و محکوم طبقات اور پرتیں يكجا ہو کر اپنی قومی خودمختاری کے لیے انگریز سامراج کو واپس پیچھے دھکیلنا شروع کرتے ہیں۔ یہاں پر میرے ذہن میں ایک سوال بے چینی سا پیدا کرتا ہے کیا اس انقلابی تنظیم کے پیچھے طبقاتی کشمکش نہیں جہاں نچلا طبقہ انگريز و سردار جاگیردار کے ظلم جبر سے بيزاری سا اختیار کر کے مزاحمت کا سفر طے کرتا ہے ہاں یہ طبقاتی شعور انقلابی راستے تلاش کرواتا ہے۔ یہی وہ بنیاد ہے جو سیاسی معراج کا سفر طے کرواتا ہے اور اسی پر ہی کامیاب قومی تحریکوں بنیادیں ہوتی ہیں ہونا بھی چاہیے کہ ورنہ صحرا میں بھٹکتے رہنے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔

بلوچ وطن پر موجودہ مسلط حاکم اور بلوچ قومی تحریک کی کہانی ماضی سے کچھ الگ نہیں، 1948 کو جب بلوچ وطن پر جبراً قبضہ گیری پنجے گاڑے جاتے ہیں تو بلوچ اکابرین کی شروعاتی مزاحمت بھی اچھی طرح منظم ہونے کے بجائے کچھ ہی دائرے تک محدود رہتا نظر آتا ہے لیکن جیسے ہی 1967 کو بلوچ طلباء یکجا ہو کر بی ایس او جیسے عظیم انقلابی و ترقی پسند قومپرست طلباء تنظیم کی بنیاد رکھ کر اپنی جدوجہد سائنسی بنیادوں پر آگے بڑھا کر تمام عوامی حلقوں تک قومی محکومیت کا احساس پہنچانے میں کامیاب ہوتے ہیں جس سے وقتی طور پر سیاسی خلا اور اس کے ساتھ ساتھ بلوچ جیسے محکوم قوم پر ہمیشہ سے سانپ کی پھن کی طرح منڈلانے والے سردار، جاگیردار و رد انقلابی قوتوں پر کنٹرول کرنے پر کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اور یہی ہوتا ہے، بیرونی مسلط حاکم کے کی طرح مقامی حاکم طبقے کے مفادات کو جہاں جہاں سے نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو وہ اس قوت کو کچلنے کا بندوبست کر ہی دیتے ہیں۔ بی ایس او کے ساتھ بات دوسرے تناظر میں ہوٸی، ہوا یہ کہ بی ایس او ایک مختصر سے وقت میں اپنے انقلابی نظریات اور عام دِرتہ پُچ بلوچ کی سیاست میں حصہ داری کے باعث قوم میں ایک اعلٰی مقام حاصل کر گیا اب لہٰذا حاکم طبقات کےلیے اسے کچلنا ناممکن رہا تو انہوں نے داٶ بدل دی، چال بدل دیے، اب ہوا یہ کہ بی ایس او کو ختم کرنے کی بجاٸے اسے مفلوج کرکے اپنے ہی استعمال میں لایا جاٸے۔ اس کےلیے حاکم طبقے نے اپنے لیے بی ایس او کے نام سے دھڑے پالنے شروع کیے اور آج کم از کم ان پالے ہوٸے دھڑوں سے حاکم طبقات کو کوٸی خطرہ نہیں۔
بی ایس او کے سفر کے مختصر سے عرصے میں 80 کی دہاٸی کے دوران بلوچ سرزمین پر ہر طرف ہمیں ایک مزاحمتی عوامی ابھار نظر آتا ہے پھر یہیں پر شہید فدا جیسے عظیم دانشور طلباء تنظیم کے دائرہ کار کو محدود پا کر اس عوامی ابھار کو روشن انقلابی ساخت دینے کے لیے بی وائی این ایم کے نام سے ایک انقلابی ماس پارٹی تشکیل دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور پھر آگے جاکر یہ بی وائی این ایم سے بی این ایم میں تبدیل ہو جاتا ہے جو کہ ایک طویل الگ بحث ہے۔

بی این ایم کے سب سے بڑے ابھار کو ہم مکران میں شہید چیئرمین غلام محمد کی صورت میں مکران میں قومی و طبقاتی شعور کو پروان چڑھاتے ہوئے دیکھتے ہیں جہاں پر عام بزگر عوام غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر ایک پلیٹ فارم پر یکجا ہونا شروع کرتے ہیں۔

اگر ہم 2000 کے بعد کی حالات کا جائزہ لیں تو یہاں بلوچ نوجوان قومی تحریک کی قیادت سنبھالتے ہوئے اسے الگ ہی رخ دے دیتے ہیں وہ بلوچ سرداروں سے قطعی لاتعلق ہو کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں
لیکن جیسے ہی پھر ریاستی درندگی قہر بن کر بلوچ وطن پر ٹوٹ پڑتا ہے، پوری کی پوری بلوچ لیڈر شپ اغوا کی جاتی ہے، وطن مسخ شدہ لاشیں اگلتا ہے اور سیاسی کارکن و قاٸدین شہید کر دیے جاتے ہیں اور پھر بچا کھچا لیڈرشپ جلاوطن ہو جاتا ہے۔

یہیں سے بلوچ سماج میں بلوچ لیڈر شپ کے عدم موجودگی کی وجہ سے ایک بار پھر قیادتی بحران جنم لیتا ہے اور لیڈرشپ کی سطح پر ایک سیاسی خلا نمودار ہوتا ہے۔

بلوچ قومی تحریک بھی لہو لہان و زخمی ہو کر پر کچھ الگ سمت ہی سفر کر بیٹھتی ہے، اگر میں اسے اپنے انقلابی قوتوں کی غلطی یا نادانی سمجھوں تو شاید میں غلط نہیں ہوں گا۔ یا پھر میرا تجزیہ میری سیاسی قد گھاٹ کی وجہ سے اتنا نہیں کہ میں ان مجبوریوں کو بھی نہ سمجھوں، وجوہات کچھ بھی ہوں، قیادتی بُحران کو کسی بھی سطح پر جھٹلایا نہیں جاسکتا وہ ایک درخشاں حقیقت بلوچ کی بدقسمتی و کمزوری بن چکی ہے۔

خیر یہ پھر ایک الگ بحث ہے میرے کہنے کا مطلب بس یہی تھا کہ جب جب بلوچ قومی تحریک ایک انقلابی جماعت سے لیس ہو کر جب عوامی حلقوں میں گن گنانے لگتا ہے تب انقلاب کے جھنڈے عام محنت کش بلوچ و بزگر کے گدانوں پر لہراتے نظر آتے ہیں۔

بقول کچھ دانشوروں کے بلوچ قومی تحریک آج تک اگر اپنے منزل تک نہیں پہنچتی تو اس میں سب سے بڑی وجہ ایک انقلابی پارٹی اور ایک انقلابی قیادت کا نہ ہونا ہے۔

پھر اب یہاں یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا اپنے اندر یہ ایک تضاد نہیں کہ ہم بس اپنی سیاسی قد کھاٹ پر اپنی اجارہ داری ہی قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ایک بات تو طے ہے انقلاب کچھ گروہوں کا نہیں بلکہ عوام کا محتاج ہوتا ہے اور جب تک ہم سماجی انقلاب کی بات نہیں کریں گے یہاں پر طبقات کی تضادات کو سائنسی بنیادوں پر سمجھنے کی کوشش نہ کریں گے تب تک ہم انقلابی ٹریک سے خود کو دور پاٸیں گے کیونکہ انقلاب بذات خود ایک سائنس ہے اور پھر سائنس مشاہدہ اور تجربات کی دنیا ہے۔

جہاں ہم ناکام ہونے کے بعد نئے مشاہدہ اور نئے تجربات کے ساتھ آگے بڑھ کر نئی چیز کی کھوج کی پریکٹس کرتے ہیں اور یہاں اگر زرہ برابر کامیابی ملے تو پھر اس کو دوبارہ نئے سرے سے اچھی طرح سے کرنا پڑتا ہے تاکہ اور اچھے نتائج ملیں، مزید راہیں ہموار ہوں، منزل مقصود کی جانب سفر مزید تیزی سے جاری ہو، لیکن خبردار! خبردار! تیزی اور جلدی بازی میں فرق ہے، تیزگامی سے میری مراد ہرگز ہرگز جلد بازی نہیں۔ اور اگر ہم ایک طریقہ کار پر چل کر بار بار ناکام ہونے کے بعد بھی وہی پریکٹس کریں گے تو یہ سائنسی بنیادوں پر پورا نہیں اترتا، فقط ایک گول داٸرے میں چکر کاٹنا ہوتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ بلوچ سماج میں موجودہ وقت میں ایک انقلابی جماعت کی ضرورت بھلا کیوں درپیش آ رہی ہے یہ ایسا ہرگز نہیں کی اس انقلابی جماعت کی بات ہم آج کر رہے ہیں بلکہ اس پر وقتاً بہ وقتاً ہماری میچور لیڈرشپ نے بات کی ہے لیکن میری دانست کے مطابق بلوچ قومی تحریک کی اس لہر میں ہمیں ایک انقلابی جماعت کی بے حد ضرورت ہے۔ ایسی انقلابی جماعت جس کی قیادت سیاسی میدان میں محکوم بلوچ کا محنت کش کرے، جس کی قیادت عام بلوچ کے پاس اور ہاں سب سے نمایاں اور ضروری بات اس انقلابی جماعت کے قیادت کا احتساب بھی ہمارے پاس ہو، اس سے سوال ہوسکے اس کا عام بلوچ بزگر احتساب کر سکے، اس کی تمام تر پالیسیاں قوم پر واضح ہوں، وہ اپنے فیصلے مسلط نہ کرے، سوال کرنے پر مسلط حاکم کی طرح جلال میں نہ آٸے، کامیابوں پر قوم کے ساتھ مسکراٸے اور غلطیوں ناکامیوں پر سینہ تان کر انقلابی بہادری و جرأت کا مظاہرہ کرکے خود کو احتساب و سزا کےلیے پیش کرے۔

آج ہم دنیا بھر میں عالمی معاشی بحران کی وجہ سے محکوم طبقات کی ایک وسیع ابھار دیکھ رہے ہیں جس کا ذمہ دار فقط سرمایہ دار کالونیٸل و سامراجی قوتیں ہیں۔ اس لہر کی کچھ چنگاریاں ہمیں بلوچ وطن پر بھی نظر آ رہی ہیں، گو کہ بلوچ سرزمین پر یہ تضاد کچھ مختلف نوعیت کا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال گوادر حق دو تحریک ہے۔ اگر ہم اب تک طبقاتی تضاد کو سمجھنے سے قاصر تھے تو گوادر تحریک میں خواتین کی بھی ریلی ہمیں نظر آئی۔ یہ وہی قومی طبقاتی شعور ہے جو گوادر سے پنجگور، مکران اور بلوچستان کے دیگر شہروں میں چنگاری کی طرح پھیل رہی ہے۔ اب وہی بات کہ لوہا گرم ہو چکا ہے ہتھوڑا کہا مارنا چاہیے مگر بلوچ کی بدبختی یہ ہے کہ لوہا بھی گرم ہے اور ہتھوڑا بھی موجود مگر ہتھوڑے کا دستہ کہیں کھو گیا ہے اور اب تک ہم نے اس کو کھوجنے کی کوشش نہیں کی۔

مکران میں جو موجودہ سیاسی و طبقاتی شعور ہے وہ وقتاً فوقتاً اور ہی بڑھتا چلا جائے گا اور اس طبقاتی شعور کے پیچھے ایک طویل سلسلہ ہے، کڑیاں ہیں سیاسی تاریخ، مسلط بیرونی حاکم کے جبر کی داستانیں ہیں۔ پچھلے چار پانچ سالوں میں مکران میں جو دلخراش واقعات پیش آئیں یہ سب کڑی بہ کڑی بندھے ہوئے ہیں۔ یہی ہے گرم لوہا جو ایک انقلابی ساخت لینے کے لیے ہتھوڑا ڈھونڈ رہا ہے اور یہ ہتھوڑا اور کچھ نہیں ایک انقلابی جماعت ہی ہے۔

ہم روز اول سے سردار بیزاری کا نعرہ لگاتے رہے ہیں لیکن وہیں پر سیاسی میدان کو خالی چھوڑ کر ان سرداروں جاگیرداروں، مذہبی شدت پسندوں اور موجودہ وقت میں ریاست کے ٹکڑوں پر پلے ہوٸے ڈیتھ سکواڈ جو کہ بری طرح سماج میں کیڑے کی ساخت اختیار کرکے ہمیں مفلوج کرتے جا رہے ہیں۔ ہم نے ان کے لیے خود ہی آسانیاں پیدا کی ہیں۔ ان تمام سیاسی و سماجی برائیوں کا ایک ہی حل انقلابی جماعت ہے۔ جو سماج اور ان رد انقلابی قوتوں کے درمیان ایک خلا کا کام کرے گا۔ جو وطن کو مجموعی سیاسی و سماجی نجات عطا کرنے کا سبب بنے گا۔