انقلابِ رومانیہ، سپارٹیکس – شئے رضا بلوچ

734

انقلابِ رومانیہ (SPARTACUS) سپارٹیکس

تحریر: شئے رضا بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

امریکی ناول نگار ہاورڈ فاسٹ کا لکھا ہوا ناول ” سپارٹیکس” ایک بے حد ہی عمدہ کتاب ہے۔ اس ناول کے بارے میں لکھنے سے پہلے ہم ناول نگار کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہاورڈ فاسٹ ایک انتہائی قابل امریکی ناول نگار ہیں۔ ہاورڈ فاسٹ کی پیدائش امریکہ کے شہر نیویارک میں 11 نومبر 1914 کو ہوتی ہے۔ ابتدائی تعلیم نیو یارک سے ہی حاصل کی۔ ہاورڈ فاسٹ کو بچپن سے ہی لکھنے کا شوق تھا، جب ہاورڈفاسٹ کی عمر 18 سال تھی تو اس نے اپنی پہلی ناول “دو وادیاں” کے نام سے شائع کی۔ ہاورڈفاسٹ نے بعد میں کچھ انقلابی ناول بھی لکھی۔ “سپارٹیکس” ہاورڈفاسٹ کے مجموعہ میں ایک بہترین کتاب ہے۔ اب تک ہاورڈفاسٹ نے کُل 80 کتابیں لکھی ہیں۔ ہاورڈفاسٹ اپنے ایک کتاب میں لکھتا ہے کہ جب ایک مرتبہ وہ جیل میں تھا تو مجھے مظلوم کا احساس ہوا اور میں نے “سپارٹیکس” لکھ لیا۔

بنیادی طور پر یہ ایک انقلابی ناول ہے اور یہ سلطنت رومانیہ پر منحصر ہے۔ اس ناول میں ہاورڈفاسٹ سلطنت رومانیہ کے خاتمے، اس میں عوام پر جو مظالم ہوئیں، کیسے لوگوں کو تکالیف دی گئیں اور اس میں لوگوں کی حالت زار بیان ہے۔ یہ ایک قدرت کا قانون ہے کہ جب ظلم حد سے بڑھ جاتی ہے تو اس کے خلاف لوگ یکجاء ہوتے ہیں۔ اس ظلم کے خلاف بغاوت کا علم بلند کرکے تاریخ رقم کرتے ہیں۔ کچھ اسی طرح سلطنت رومانیہ میں بھی لوگ اس ظلم کے نظام کے خلاف کھڑے ہوجاتے ہیں اور اپنی ایک الگ تاریخ رقم کر ڈالتے ہیں ۔

ناول کی ابتداء کچھ یوں ہوتی ہے کہ تین دوست سلطنت رومانیہ میں کئی گھومنے پھرنے نکلے ہوتے ہیں کہ اچانک راستے میں انہیں ایک جگہ 600 لوگوں کی ڈھانچے لٹکتی نظر آتی ہیں۔ جب وہ ان لوگوں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہ یہ کون لوگ ہیں، ان کی ڈھانچے یہاں کیوں لٹک رہی ہیں۔ تب انہیں سلطنت رومانیہ کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کیا ہوا تھا، کیوں ہوا تھا، کس نے کیا تھا۔ ہر دور میں انقلاب آتے رہے ہیں کہیں چھوٹے جبکہ کہیں زبردست قسم کے۔ اب یہاں سلطنت رومانیہ کی بات کرتے ہیں وہاں بھی چھوٹے موٹے انقلاب آتے رہے ہیں لیکن سنہء 71 بی سی میں “سپارٹیکس” ایک عظیم انقلاب لاتا ہے۔ اس انقلاب میں سپارٹیکس نہ صرف سلطنت رومانیہ کا خاتمہ کرتا ہے بلکہ خوشحالی کا ایک نظام بھی قائم کرتا ہے۔

ایک انقلاب، ایک آزادی یا خودمختاری کے نظام کو قائم کرنے کے لیے لازماً قربانیاں دینی پڑتی ہیں کیونکہ اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں یہی ملتا ہے کہ قربانی کے بغیر کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ چاہے الجزائر یا الجیریا کا انقلاب ہو یا پھر انڈیا میں بھگت سنگھ کا انقلاب ہو بغیر قربانی کے نہیں آئی تھیں۔ سپارٹیکس کے اس انقلاب میں بھی کئی طرح قربانیاں دی گئی ہیں، کئی طرح کے مصیبتیں جھیلی ہیں۔ انقلاب ایک ایسا طویل سفر ہے کی جو ایک یا دو دنوں میں طے کیا جاسکے بلکہ یہ دہائیوں اور صدیوں کا سفر ہے۔ سپارٹیکس کے انقلاب کا سفر تقریباً 500 سال طویل تھا۔

جیسا کہ اوپر بیان ہے کہ سپارٹیکس کا یہ انقلاب سلطنت رومانیہ میں آیا تھا جو کہ موجودہ دارالحکومت اٹلی، روم، ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ انقلاب کی سیڑھی پر پہلا قدم کس نے رکھا، یہ انقلاب کہاں سے شروع ہوا۔ اس لیے اُس معاشرے پر تھوڑا نظر ڈالتے ہیں، یہ ایک ایسا معاشرہ تھا جہاں غلامی ایک رواج بن چکا تھا، جو آباواجداد سے غلام آتا رہا ہے وہ ہمیشہ اچھا اور فرمانبردار غلام ہوگا۔ انقلاب کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھنے والا پہلا شخص ایک گلیڈیئٹر تھا۔ گلیڈیئٹر ایک ایسا جنگجو ہوتا ہے جو آباواجداد سے غلام تھا، گلیڈیئٹر ایک ایسا جنگجو ہوتا ہے جو جسمانی طور پر کافی مضبوط ہے، گلیڈیئٹر ایک ایسا جنگجو ہوتاہے جس کو باقاعدہ جنگی مہارت حاصل ہو۔ یہ ایک ایسا معاشرہ تھا جہاں انسان خاص کر غلام کی کوئی قیمت نہیں تھی، یہاں لوگ غلام کو ذرہ برابر بھی انسان نہیں سمجھتے تھے۔ گلیڈیٹرز کے بننے کی بڑی وجہ بھی یہی تھی کہ لوگ دو گلیڈیٹرز کو لڑا کر خود محظوظ ہوتے تھے، جشن مناتے تھے۔ دو گلیڈیٹر کے بیچ تب تک لڑائی جاری رہتی جب تک ان میں سے ایک کی موت نہ ہوتی۔ اس لیے اس معاشرے میں ہر ظالم کی یہی خواہش رہتی کہ وہ مضبوط ترین گلیڈیٹر خریدلے۔ اس معاشرے میں لوگوں نے گلیڈیٹر کو اپنا ذریعہ معاش بھی بنایا تھا۔ گلیڈیٹرز کو لڑا کر پیسے بٹورنا پیشہ بن چکا تھا۔ ان گلیڈیئٹرز میں ایک ایسا گلیڈیئٹر بھی تھا جو کبھی بھی کوئی جنگ نہیں ہارا تھا، اُس کا نام ”سپارٹیکس” تھا۔

سپارٹیکس کی نگرانی میں 70 گلیڈیئٹرز ہوتی ہیں جنکی جنگی تربیت سپارٹیکس خود کررہا ہوتا ہے۔ ایک دن کچھ یوں ہوتا ہے کہ ان 70 میں سے ایک گلیڈیئٹر اپنے مالک کی بات ماننے سے انکار کرلیتا ہے۔ اس واقعہ کے بعد سپارٹیکس کو پہلی مرتبہ غلامی کا احساس ہوتا ہے۔ آہستہ آہستہ سب کو غلامی کا احساس ہوتا کہ ہم غلام بنائے گئے ہیں اور یوں یہ 70 جنگجو ظلم کے خلاف بغاوت کا اعلان کرتے ہیں۔ اس طرح سلطنت رومانیہ کے خلاف بغاوت کی پہیلی سیڑھی پر یہ 70 گلیڈیئٹرز قدم رکھتے ہیں۔ یوں جنگ آزادی کا باقاعدہ آغاز ہوجاتا ہے۔

یونہی سفرچلتا رہا، جدوجہد جاری رہی، اسی اثناء میں کافی سارے گلیڈیئٹرز اس کاروان کا حصہ بنتے گئے۔ وہ آزادی کے اس جنگ کو اپنا حقیقی جنگ سمجھنے لگے۔ اوران کی تعداد 60000 تک جاپہنچی ۔ یہ سفر کامیابی سے چل رہا تھا کہ سپارٹیکس کا ایک نہایت ہی قریبی ساتھی جس کا نام “ویرو” تھا، جسے اب یہ خیال آیا کہ ہمیں اب گوریلا جنگ نہیں لڑنی چاہیے، گوریلا جنگ اب ہمارے لیے نقصان ہے۔ ویرو کا کہنا تھا کہ اب ہماری تعداد کافی ہوچکی تو ہمیں گوریلا نہیں بلکہ سامنے سے دوبدو لڑنا چاہیے جبکہ سپارٹیکس اور اسکے باقی دوستوں کا خیال اس سے بالکل مختلف تھا، وہ گوریلا جنگ پر یقین رکھتے تھے۔ ویرو اور سپارٹیکس کے بیچ اختلاف کی ایک دیوار کھڑی ہوجاتی ہے۔ اب یہ بڑی فوج ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی ہے۔ 30000 گلیڈیئٹرز ویرو کے ہمراہ ہوتے جبکہ باقی سپارٹیکس کے نقشِ قدم چلتے ہیں۔

اب یہاں ایک سوال آتا ہے انقلابی جنگیں کیسے لڑی جائے؟ کیا ویرو نے درست راستہ اختیار کیا؟ یا پھر سپارٹیکس اس جنگ میں راہ راست پر تھا؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہمیں کچھ واقعات کی طرف دیکھنا ہوگا۔ ویرو اور سپارٹیکس کے اختلافات کے بعد دونوں اپنی راہ چلے۔ ویرو نے سامنے سے لڑ کر دشمن کو شکست دینے کی ٹھان لی۔ کچھ عرصہ لڑتا رہا چھوٹی موٹی کامیابیاں بھی ملی لیکن ایک دن ایسا آیا کہ ویرو کو بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔ ہوا کچھ یوں کہ دشمن نے اچانک ویرو کے فوج پر بھاری حملہ کیا۔ ویرو سمیت پوری فوج ہلاک و گرفتار ہوئی جبکہ سپارٹیکس اپنے گوریلا سفر میں کامیاب رہا۔ ویرو کے طریقہ جنگ سے بڑا نقصان ہوا کہ بہت ہی کم وقت میں پوری فوج ختم ہوئی۔

ویرو کے اس شکست سے سپارٹیکس نے بھی سبق حاصل کی، اسے خیال آیا کہ ہوسکتا ہے مجھے بھی ویرو کی طرح کبھی نقصان کا سامنا کرنا پڑے، ہوسکتا ہے میں بھی ویرو کی طرح اچانک مارا جاؤں۔ اس کے بعد سپارٹیکس کو حکمت عملی سوجھی اُس نے اپنی بڑی فوج کو چھوٹے چھوٹے دستوں میں تقسیم کردی اور اپنی طرح کے کئی کمانڈر تیار کرتا ہے۔ سپارٹیکس کی یہ حکمت عملی نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہے۔ جب ایک دن سپارٹیکس کی فوج پر دشمن حملہ کرتا ہے تو انقلاب کے اس لڑائی میں سپارٹیکس خود تو فنا ہوجاتا ہے لیکن اس کے 600 سپائی گرفتار بھی ہوتے ہیں۔ ان 600 سپائیوں کو دشمن سرِبازار لٹکا دیتا ہے تاکہ یہ باقیوں کے لیے عبرت کا نشان بنے اور کوئی اس جنگ میں شامل ہونے کی جرأت نہ کرے۔ یہ وہی 600 لوگ ہیں جن کا ذکر ہم ابتداء میں کرچکے ہیں۔

سپارٹیکس کے موت کے بعد رومانیہ میں جشن منائی گئی کہ یہ جنگ ناکام ہوچکی ہے، سپارٹیکس مارا جاچکا ہے۔ عموماً عظیم رہنماوں کے جانے سے انقلابی سفر وقتی طور پر آہستہ تو ہوجاتی ہیں لیکن رُکتی نہیں۔ کچھ ہی عرصہ بعد سپارٹیکس کی طرف سے ایک مرتبہ پھر دشمن پر زوردار حملہ ہوتا ہے اور اس حملے سے دشمن شدید نقصان وصول کرتا ہے۔ ایک مرتبہ پھر سلطنت رومانیہ تذبذب کا شکار ہوتا ہے کہ سپارٹیکس تو مرچکا ہے پھر کون ہے جو یہ جنگ لڑرہا ہے۔ اب یہاں ایک بات سمجھنے کی ہے کہ انقلابی جنگ یا زمین و وطن کے لیے لڑی جانے والی جنگیں جذباتی جنگیں نہیں ہوتی بلکہ یہ نظریاتی جنگیں ہوتی ہیں۔ سپارٹیکس بھی ایک نظریہ بن چکا تھا اور اس کی جنگ بھی نظریاتی جنگ تھی، بقاء کی جنگ تھی۔ سپارٹیکس کی فوج کا ہر سپائی سپارٹیکس تھا۔ آخرکار مسلسل جدوجہد اور مستقل مزاجی رنگ لےآتی ہے، 500 سال بعد سلطنت رومانیہ سپارٹیکس کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوتی ہے اور سپارٹیکس کو فتح ملتی ہے۔

آخر میں انقلابی جنگوں پر تھوڑی سی روشنی ڈالنا چاہونگا۔ سب سے پہلے اسی جنگ رومانیہ کی بات کرتے ہیں، انقلابی لوگ نظریاتی طور پر بالکل پختہ ہوتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے رومانیہ کے جنگ کی شروعات 70 لوگوں سے ہوتی ہے اور وہ بعد میں لاتعداد ہوجاتے ہیں۔ اگر وہی 70 لوگ یہ سوچ کر جنگ کا حصہ نہ بنتے کہ ہم مٹھی برابر ہیں ہم جلد ختم ہونگے تو ان کو آزادی آج تک نہ ملتی۔ اسی طرح انڈیا کا بھگت سنگھ بھی اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ اپنے انقلاب کا آغاز کرتا ہے، بھگت سنگھ کا ایک بم پورے برٹش راج کو ہلا دیتا ہے۔ اب بلوچستان میں پچھلے 70 سالوں سے چلنے والی شورش پر نظر ڈالتے ہیں۔ بلوچستان کے اس جنگ کے بارے میں کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ہم بہت ہی کم ہیں ہمیں اپنے لوگ زیادہ کرنی چاہیے اور اسکے بعد جنگ لڑنی چاہیے، اگر یہی بات سپارٹیکس اور بھگت سنگھ سوچتے تو آج تک نہ رومانیہ میں اور نہ ہی انڈیا میں انقلاب آتا۔ اگر بلوچستان میں ظلم کے خلاف جنگ کی بات کی جائے تو ہمیں یہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ بلوچستان کے آزادی کی جنگ شروع کرنے والے صرف 11 لوگ تھے، انکی قربانی کی بدولت آج سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں لوگ اس جدوجہد میں شامل ہیں۔ آزادی کی جنگوں میں عروج و زوال تو آتی رہتی ہیں۔ یہ مشقلات ایک نظریاتی جہدکار کو مزید پختگی بخشتے ہیں اور یہی پختگی ایک دن آزادی میں بدل جاتی ہیں۔ بلوچستان کی آزادی کے لیے بھی بہت سارے لوگوں نے قربانیاں دی ہیں اور کافی ساروں نے مشقلات برداشت کی ہیں۔ یہ قربانیاں ضرور ایک دن رنگ لائیں گی اور بلوچستان ایک دن ضرور آزاد ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں