الوداع فرشتوں کی ماں!
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
وہ ہنستے ہنستے سوگئی، سو بھی ہمیشہ کے لیے
میں فرشتہ نہیں انسان ہوں اور مجھے بس اتنا معلوم ہے کہ جب مائیں مرتی ہیں تو سب کچھ مر جاتا ہے
پر جب فرشتوں کی مائیں مرتی ہیں تو فرشتوں پر کیا بیتتی ہے؟
جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سو گئی وہ فرشتوں کی ماں تھی!
بچے فرشتے ہوتے ہیں معصوم ہوتے ہیں
آج فرشتوں میں صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے
عرش پر بھی اور فرش پر بھی!
اب جب دو معصوم فرشتوں جیسے بچے ایدھی ہوم میں لڑیں گی تو انہیں گجراتی میں پیار کرنے والا کوئی نہیں ہوگا، جب کوئی بچہ آدھی رات کو ڈر کر ماں! ماں! پکارے گا تو کون ہوگا جو اُٹھ کر اس بچے کو اپنی بہانوں میں سلائے گا اور اس سے کہے گا ”تم میرے شہزادے ہو!“
اب جب کسی بچے کو ایدھی ہوم کا کھانا نہیں بھائے گا تو کون ہوگا جو اس بچے کی فرمائیش پر کے ایف سی سے برگر منگائے گا؟
اب جب بہت میلے بچے کو ایدھی ہوم کی رضا کار بھی نہیں نہلائیں گے تو کون ہوگا جو اس میلے بچے کو گود میں لے کر نیم گرم پانی سے نہلائے گا اور اس محبت سے بوسہ دے گا؟
اور جب شہر یاراں سے بے ماؤ ں کے بچے کچرہ کنڈیوں سے ملے گے تو کون ہوگا جو آگے بڑھ کر ان کی ماں بنے گا
وہ بھی بڑی ماں اور اچھی ماں!
وہ چھوٹے بچوں کی بڑی ماں
اور بڑے بچوں کی چھوٹی ماں تھی
اس نے سیکڑوں بچے نہلائے، سیکڑوں بچے پالے پوسے اور سیکڑوں بچوں کی شادیاں کیں
وہ خوش بھی ہوئی جب کوئی ایدھی ہوم کا بچہ ایدھی ہوم می دلہن لاتا اور وہ بہت سے آنسو بھی بہاتی جب ایدھی ہوم سے کوئی بچی بہیا کر پیا گھر جاتی، اس کی آنکھوں سے کتنے آنسو بہے؟
اس کا حساب مشکل ہے!
اس نے بس ایدھی صاحب کے بچے نہیں پالے، پر اس نے اس ملک کے سبھی بچے پالے جو بچے محبت کی مزدوری میں پسینے کی ماند پیدا تو ہو جاتے پر انہیں قبول نہیں کیا جاتا، اس نے وہ سبھی بچے پالے اسی لیے وہ الزاموں اور فتوؤں کی زد میں رہی، پر پھر بھی ماں رہے۔
وہ دینا کی واحد ماں تھی جس کے لیے یہ اعزاز تھا کی ایدھی ہوم کے سبھی سینٹروں کے بچوں کے برتھ سرٹیفیکٹ کے خانے میں ماں کے اندراج میں اسی کا نام درج تھا ”بلقیس ایدھی!“
وہ واحد ماں تھی جس نے سیکڑوں بچوں کے میلے منہ چومیں
وہ واحد ماں تھی جس کے دل میں سوائے محبت کے کچھ نہ تھا
وہ واحد ماں تھی جس کے کاندھوں پر سیکڑو ں بچے سوار ہوئے اور اترے
وہ واحد ماں تھی جس نے سیکڑوں بچوں کے بال سنوارے
وہ واحد ماں تھی جس نے سیکڑوں بچوں کو پال پوس کر جوان کیا
وہ واحد ماں تھی جو ہر زباں کے بچے کی بولی سمجھ جاتی تھی
وہ واحد ماں تھی جس نے گونگے بچوں کی بولیاں بھی سمجھیں
وہ واحد ماں تھی جس نے ڈانٹ تو گجراتی بولی میں کی
پر جس کے محبت بس پیار کی بولی میں کیا
وہ واحد ماں تھی جس کے ہاتھ کی لکریں ان بچوں کے گالوں پر ثبت ہوگئیں جن بچوں کے گالوں کو وہ اپنے ہاتھوں سے قریب کر کے چومتی تھی
وہ واحد ماں تھی جس نے دنیا کے نوحے سنیں طعینیں اور بدلے میں گیت سنائے
وہ واحد ماں تھی جس نے سب سے زیا دہ رتجگے کیے
وہ واحد ماں تھی جس نے سب سے زیادہ روتے بچے خاموش کرائے
وہ واحد ماں تھی جس نے سب سے زیا دہ روٹھے بچے منائے
وہ واحد ماں تھی جس نے سب سے زیادہ بیٹیاں بدا کیں اور بیٹوں کی دلہنیں ایدھی ہوم لائیں
وہ واحد ماں تھی جس نے آنکھوں نے نید سب سے کم کی اور جاگی بہت!
وہ واحد ماں تھی جس نے دوسروں کے دردوں کو اپنے گھر میں رکھا اور انہیں خوشیاں دیں
وہ واحد ماں تھی جس نے خود فاقہ رکھ کر سب سے زیا دہ روٹیاں بنائیں
روٹیاں ہی کیا پر معصوم بچوں کے فیڈر اور ناراض بچوں کو اپنے ہاتھوں سے نوالے کھلائے
وہ واحد ماں تھی جسے یہ فکر لاحق ہوتی تھی کہ ایاز نے کھانا کھایا؟رمیز نے کھانا کھایا؟
ماؤں کا مرجانا ایک سانحہ ہوتا ہے اور جب سیکڑوں فرشتوں جیسے بچوں کی ماں مر جائے تو پھر وہ کیا ہے؟
آج ایسا ہی کچھ ہوا ہے، بس فیصل ایدھی کی نہیں ان سیکڑوں بچوں کی ماں مر گئی جن معصوم بچوں سے ایدھی ہوم میں کوئی میڈیائی نمائندہ بہت ہی بے شرمی سے پوچھتا تھا کہ
”آپ کی ماں کا نام کیا ہے؟!“
تو معصوم بچے اپنی توتلی زباں میں جواب دیتے تھے کہ
”اماں بلقیس!“
اورمیڈیائی نمائیندے سے بہت دور کھڑی وہ فرشتوں کی ماں مسکراتی رہتی تھی
آج وہ آسماں پر جا رہی ہے
اور زمیں پہ فرشتوں میں صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے
الوداع! فرشتوں کی ماں
الوداع!
الوداع!
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں