آئین ملامت ہے ۔ یوسف بلوچ

402

آئین ملامت ہے

تحریر: یوسف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اب مجھے انڈیا کے شہر ہریانہ میں پیدا ہونے والے، انسانی حقوق کے علمبردار، ایک تجربہ کار اور بہترین صحافی آئی اے رحمان یا ابنِ عبدالرحمٰن کی بہت یاد آئی۔۔۔ لاہور میں جبری گمشدگیوں کے خلاف ایک منعقدہ سیمینار میں آپ کی باتیں یاد آئیں اور بہت یاد آئیں۔
ابنِ عبدالرحمٰن فرما رہے تھے یہاں کیا ہو رہا ہے۔۔۔ لاپتہ بھی کر دیتے ہو پھر بازیاب نہیں کرتے، پھر بلاجھجک فرماتے ہو کہ ہمارے پاس نہیں۔۔۔ یہ سلسلہ ریاستی میشینری کی سرپرستی میں کب تک چلے گی۔ کیا اس کا انجام جانتے ہو؟
اب آئی اے رحمان کی یاد میں آنسو ہی دیکھ رہا تھا کہ پنجگور سے ایک فوٹو سوشل میڈیا کی سرکس میں کچھ گمراہ دوستوں کی طرف سے دی گئی تھی۔ فوٹو کو وہی دیکھ سکتے ہیں جنہوں نے ایک انسان کو اس حال میں کیا ہے، مسخ کیا ہے، سر و پیر الگ کرکے خاک کے حوالے کیا ہے بنا دفنا کے۔۔ اب پگر اے آر رحمن یاد آگئے۔
اب ایک اور فیصلہ یاد آگیا۔ انصاف کے کٹہرے میں جو آئین انصاف چا رہا تھا انہیں بلآخر منصفوں نے سن لیا مگر اسی آئین کے ٹکڑے جو بلوچستان کے سرکاری فائلوں میں موجود، حلف نامے میں موجود، عملاً کہیں غائب ہیں۔ بلوچستان میں آئین کے ساتھ کچھ اور سلوک ہو رہا ہے۔ وہاں آئین انصاف چاہتا تھا مل بھی گیا اور یہاں آئین دہائیوں سے لاپتہ ہے۔
تعجب کریں آئین کو لاپتہ کرنے والوں کے نام سے پہلے اخباروں میں لکھا جاتا ہے “قانون نافذ کرنے والے ادارے”۔۔۔۔ اب جناب کوئی مائی کا لال اٹھ کر کہیں کہ قانون نافذ کرنا اب تم ہمیں سکھاؤں گے۔۔!
سکھا نہیں سکتے بتا سکتے ہیں، یاد دہانی کرا سکتے ہیں۔۔۔
آئین کہتا ہے کہ کسی بھی مجرم کو گرفتاری کے بعد جوبیس گھنٹوں میں تھانہ لائیں۔۔ عدالت کے کٹہرے میں پیش کریں۔۔ قانون کو بولنے دیں، پرکھنے دیں اور قانون کے تحت سزا دلوائیں۔۔۔ اب قانون سے پہلے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور قانون کے بعد بھی۔۔
ذرا حفیظ کو یاد کریں۔۔ باغبانہ خضدار سے لاپتہ ہوئے، عوامی دباؤ نے دو ماہ بعد انہیں ڈیرہ مراد جمالی میں بارود سمیت پہنچا دیا۔ خضدار میں قلم کے ساتھ لاپتہ ہوئے اور ڈیرہ مراد جمالی میں بارود اور اسلحہ کے ساتھ ٹھیک دو ماہ بعد ظاہر ہوئے۔۔۔
عدالت عالیہ اسلام آباد نے وزیر داخلہ کے روبرو بلوچ طلبا کو بٹھایا تو وزیر صاحب نے ہمدردی کے ساتھ فرمایا کل اس کرسی میں میرا باپ تختہِ نشین ہوگا۔ ایک لمحہ کے لیے جالب کو یاد کریں
یہاں کل کوئی اور تختِ نشیں تھا
اسے بھی اپنے خدا ہونے پہ اُتنا ہی یقیں تھا
نہ یہ طلبا وزیر کو اٹھانے گئے تھے اور نہ ہی دھمکی دینے۔ طلبا کی ہراسگی کو وزیر صاحب نے اپنی ہراسگی سمجھا۔۔
وزیراعظم سے ڈاکٹر دین محمد کی بیٹی ملاقات کرنے پہنچی تھیں۔ صاحب نے یقین دہانی کرائی اور آج تک ڈاکٹر دین لاپتہ ہیں۔۔ اب سمی دین بھی کہہ دیں
کیا ہوا تیرا وعدہ!
اب طلبا کی ہراسگی کیس کی سماعت میں عدالت نے صدرِ پاکستان کو طلبا سے ملاقات کا حکم دیا ہے اب سر گھمائیں وزیراعظم کے اختیارات اور ملکی داخلہ کے ذمہ دار یقین دہانی کرا سکتے ہیں اور اختیارات کی نچلی کرسی کا صاحب یقین دہانی کرائے گا، وعدے پورے کرے گا اور یا کہیں گا ابھی جائیں ایک مہینے میں ٹارچر سیل خالی۔۔۔
ہمارے عزیز از جان استاد عاطف توقیر فرماتے ہیں
دستور سلامت ہے
دستار سلامت ہے
یہاں دستور اور دستار صرف سلامتی کی دعا ہی مانگ رہے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں