آؤ پہاڑوں کی باتیں کریں ۔ محمد خان داؤد

815

آؤ پہاڑوں کی باتیں کریں

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

وہ ریزہ ریزہ پہاڑ،بکھرے بکھرے پہاڑ جنہیں ایٹمی ذروں سے ہوا میں تحلیل کیا گیا، اٹیمی دھماکوں کے بعد پتھر پتھر نہ رہے اور پہاڑ دھول بن کر ہواؤں میں تحلیل ہو گئے، اب کوئی اور کیا پہاڑ بھی یہ نہیں جانتے کہ وہاں پہاڑ تھے یا بس دھول؟ ان پہاڑوں کا نوحہ میں نہیں لکھ رہا پر ان دھول آلود پہاڑوں کا نوحہ بلوچستان اپنے آنسوؤں سے بہت پہلے ہی لکھ چکا ہے، وہاں پر جہاں کوئی نہیں جاتا، کوئی نہیں آتا جو دھرتی کے لیے قربان ہو رہے ہیں وہ نیچے اتر کر کسی کو کچھ نہیں بتاپاتے اور جو نیچے میدانوں میں ہیں وہ اوپر پہاڑوں میں جاکر یہ نہیں دیکھتے کہ پہاڑوں کا درد کس نے لکھا اور کہا لکھا اس لیے میں ان بلند وہ بالا اور دھول میں بدل جانے والے پہاڑوں کا نوحہ نہیں لکھوں گا ان پہاڑوں کا نوحہ تو بہت پہلے لکھا جا چکا پر مجھے یہ لکھنا ہے کہ اس نوحہ گیری سے کس نے کتنا کمایا حالاں کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ صاحب علم ہمیں یہ بتاتے کہ پہاڑوں کے درد سے دھرتی کس قدر غم میں ہے اور دھرتی باسیوں نے کیا کچھ گنوایا ہے پر ہم نے دیکھا کہ صاحب علم خاموش رہے اور دھرتی مزید دھول آلود ہوتی رہی،لُٹتی رہی،اور پہاڑ تھے کہ جن پر تجربات ہوتے رہے وہ بھی ایٹمی ذرات کے جب ان پہاڑوں پر ایٹمی تجربات ہو رہے تھے تو پہاڑوں کے بلند و بالا سر ایسے ہوا میں تحلیل ہو رہے تھے کہ جیسے کوئی روُئی ہو جب اہلِ دانش کو ایک اجتماعی چیخ بن جانا چاہیے تھا جب اہل علم اندھے، گونگے اور بہرے بنے بیٹھے ہوئے تھے جب کوئی نہیں تھا کہ وہ پہاڑوں کا نوحہ لکھتا، پہاڑوں کی چوٹیوں کا درد لکھتا پہاڑوں کی وہ چیخیں بیان کرتا جو پہاڑوں کے لبوں سے نکلیں اور وادیوں میں کہیں کھو کر رہ گئیں یہ کام اہل علم باشعور دانشوروں کا تھا پر اس کام کو جب بھی یا تو دیس کی محبت میں پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ جانے والے سرمچاروں نے سر انجام دیا سیا سی ورکروں نے ہاتھوں میں بینر لیے سب کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ ”پہاڑوں کے سر مت کاٹو!“
یا وہ پہاڑ ہی تھی
جو خود ہی نوحہ تھا
خود ہی نوحہ گر
خود ہی آنکھیں تھے
خود ہی آنسو
پر یہ بات تو تب کی ہے جب وادی سینا جیسی پہاڑے سلسلے میں پہاڑوں کے دامنوں کو ایٹمی ذرات سے ریزہ ریزہ کیا گیا تھا اور اس وادیِ سینا جیسی پہاڑی سلسلے سے بہت دور ایک چرواہا رو رہا تھا۔

کیوں؟اس لیے کہ اب اس وادی میں نہ تو ہر یالی نے دامن کو پسارنا تھا اور نہ بارش کا پانی ٹھہر کر کسی کی پیاس بھجاتا نہ گُل کھلتے اور نہ ان گلوں پر بھونرے اُڑتے نہ وہ پھولوں کا رس چوستے نہ شہد کے چھتے بنتے نہ زندگی کی رمق باقی رہتی نہ محبت کا جنم ہوتا اس لیے اس وادیِ سینا جیسے پہاڑی سلسلے سے بہت دور چرواہا رویا تھا جب بھی اہل علم کا فرض تھا کہ وہ اس وادی کا درد بھی لکھتا اور اس چرواہے کا بھی پر ایسا نہ ہوا!
پہاڑ دیس میں ہو تے ہوئے جلا وطن کیوں ہیں؟ وہ پہاڑ جو زندگی دیتے ہیں جن کی چوٹیوں پر محبت کا جنم ہوتا ہے جہاں زندگی انگڑائی لے کر جاگ اُٹھتی ہے جو پہاڑ دیس اور محبت کے درمیاں ہو تے ہیں جن پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ اب چاند دور نہیں
جہاں محبت اور چاند ساتھ ساتھ چلتے ہیں پھر محبت اور چاند عشق میں بدل جاتے ہیں اور وہی عشق ایک سرمچار کو جنم دیتا ہے جو پہاڑ سے سُرک کر آئے پتھر پر محبت کا نام لکھتا ہے”آزادی!“

اور بچو ں کی طرح خوش ہوتا ہے جو محبت اور آزادی کے رنگ میں رنگ جاتا ہے پھر وہ محبت اور آزادی کے اتنے قریب ہوجاتا ہے کہ جب وہ محبت سے آزادی کے گال پر پہلا بوسہ دیتا ہے
تو دھرتی جھوم جاتی ہے!
جب اسے احساس ہوتا ہے کہ پہاڑ نہ ہو تے تو محبت نہ ہو تی محبت نہ ہو تی تو دیس نہ ہوتا اور دیس نہ ہوتا تو آزادی نہ ہوتا پھر وہ دیس محبت اور آزادی کی ملی جلی کیفیت میں رہتا ہے!
اور پھر پہاڑوں پر خون دل سے لکھتا ہے
”آزادی!“

جب اہل علم وہ دانشور با شعور وہ اہل قلم خاموش تھے
جب پہاڑ ایٹمی ذرات سے دھل رہے تھے
اور اب کی بات اور ہے اب بات اٹیمی ذرات کے تجربات کی نہیں اب بات سرمائے دار کی ہے
اور اسے بلوچستان کے پہاڑوں میں سونا نظر آیا ہے اگر سرمائے دار کو ماں کے سینے میں سونے کا دل نظر آجائے تو وہ ماں کا کلیجہ نوچ لے یہ تو پھر بھی پہاڑوں کی بات ہے اور سرمائے دار کا کوئی وطن نہیں ہوتا اس کا بس سرمایا ہوتا ہے کچھ سرمایا لگاتا ہے اور کچھ سرمایا کماتا ہے سرمائے دار کو بلوچ دھرتی یا بلوچ بلند و بالا پہاڑوں سے کیا کام؟ اس کو تو بس اس وادی سینا جیسے پہاڑی سلسلے میں سونا نظر آیا ہے اور وہ بہت سے سرمایا لگا کر بہت سا سونا حاصل کرنے آیا ہے دیس اُجڑتا ہے تو اُجڑے، پہاڑوں کے بلند سر تن سے جدا ہو تے ہیں تو ہوں دیس کی تتلیاں اور پھول بے وطن ہو تے ہیں تو ہوں بارش برسنے کے بعد کہاں ٹھہریں گی یہ اس کے سر کا درد نہیں چرواہا بکریاں کہاں لے جائے گا زندگی کہاں کھیلے گی محبت رنگ خوشبو اور آزادی کا جنم کہاں ہوگا یہ بھی اس کے سر کا درد نہیں!
جب کل پہاڑوں کے دامن چاک ہو رہے تھے جب بھی اہل علم خاموش تھے
اور جب آج سرمائے دار پہاڑوں کے سینوں سے سونا تلاش کر رہا ہے اور اسے ڈائینامائیٹ سے اُڑا رہا ہے جب بھی اہل علم باشعور دانشور خاموش ہیں
کل بھی بلوچ سیا سی ورکر ہاتھوں میں بینر
سرمچار بندوق کے ہاتھوں میں بندوق تھی
اور وہ آگے بڑھ کر پہاڑوں کی باتیں کرتے تھے اور پہاڑوں کو بچاتے تھے
اس لیے آؤ پہاڑوں کی باتیں کریں
کاش بلوچستان کے دانشور اہل قلم
پہاڑوں پر بستے چرواہے کا گیت سنتے
جس گیت میں رنگ،خوشبو،روشنی اور آزادی کی باتیں ہیں
کاش!
”وہی کپڑے پرانے ہیں
وہی بوسیدہ جوتے ہیں
وہی میں ہوں
وہی تو ہے
پر بتا کیا تمہیں پہاڑوں سے بھی محبت ہے؟!“


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں